Mumtaz Shaira Adeeba Sobia Khan Niazi - Article No. 2519

Mumtaz Shaira Adeeba Sobia Khan Niazi

ممتاز شاعرہ ، ادیبہ'' ثوبیہ خان نیازی'' کی ادبی خدمات پر ایک نظر - تحریر نمبر 2519

آپ خوبصورت شاعرہ ، صاحبِ اسلوب کالم نویس ، بلند پایہ نثر نگار ،نام ورمصنفہ اور ممتاز ادیبہ ہیں۔ آپ کی شاعری محبت کے جذبوں میں گُندھی ہوئی ہے۔

Luqman Asad لقمان اسد جمعرات 22 اپریل 2021

وطن عزیز میں بسنے والے نیازی قبیلے کو اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے اپنے خاص فضل و کرم سے نوازا ہے کہ جب بھی علم و ادب کی بات کی جائے تو اس قبیلے کے با صلاحیت سپوتوں اور ہونہار و باہمت بیٹیوں کا تذکرہ ضروری ہو جاتا ہے۔ شعر و ادب کی کائنات میں معروف و ممتاز شاعر منیر نیازی کا نام اور شخصیت یقینا کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انھوں نے اس میدان میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا اس انداز میں منوایا کہ آج ان کا شمار اکابرینِ ادب و نامی گرامی ادباء شعراء میں کیا جاتا ہے۔
منیر نیازی کے لاتعداد شعر مقبولِ خاص و عام ہیں۔
جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہو گیالیکن کبھی رویا نہیں
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اس ضمن میں منیر نیازی سے لیکر علامہ عبدالستار نیازی ، مولانا کوثر نیازی ، ڈاکٹر اجمل نیازی و ڈاکٹر لیاقت علی نیازی وغیرہ تک کئی ایسی نامور شخصیات اس قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں کہ جنہوں نے اپنے اپنے شعبہ اور فیلڈ میں نہ صرف اپنے فنی جواہر اور کام کا ڈنکا بجایا بلکہ قومی سطح پر بے مثال کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔

(جاری ہے)

نیازی قبیلے کی ایک باکمال اورتخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال علمی و ادبی شخصیت ثوبیہ خان نیازی ہیں۔ ثوبیہ خان نیازی کا اصل نام ثوبیہ نورین ہے انھیں اپنے قلمی نام ثوبیہ خان نیازی کے نام سے علم و ادب کی دنیا میں شہرت حاصل ہے۔ ثوبیہ خان نیازی کے آباؤ اجداد کا تعلق ضلع میانوالی کے ایک قدیمی گاؤں ''مدو خیل''سے ہے۔ ان کے والد پاکستان نیوی میں خدمات انجام دیتے رہے۔
ثوبیہ خان معروف انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی جنم بھومی ضلع نارووال کے علاقے شکر گڑھ ایک گاؤں ''مدہ کوٹلی '' میں 2اپریل 1983ء کومشتاق خان نیازی کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم شکر گڑھ سے ہی حاصل کی۔
آپ خوبصورت شاعرہ ، صاحبِ اسلوب کالم نویس ، بلند پایہ نثر نگار ،نام ورمصنفہ اور ممتاز ادیبہ ہیں۔ آپ کی شاعری محبت کے جذبوں میں گُندھی ہوئی ہے۔

کو ئی ایسا لمحہ نصیب ہو
جہاں ایک تو ہی قریب ہو
انھوں نے گریجویشن اسلامیہ کالج لاہور جب کہ اردو میں ماسٹر کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔
ثوبیہ خان نیازی نے شعر کہنے کی ابتداء اپنے زمانہ طالب علمی سے کی ۔ تب وہ نارووال سے لاہور آچکی تھیں اور یہیں لاہور ہی میں انھوں نے اس شہرہ آفاق شعر کے خالق
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر خالد شریف سے باقاعدہ طور پر اصلاح لینا شروع کی ۔
ثوبیہ خان کا پہلا شعری مجموعہ ''میرا محرم راز'' 2018ء میں اشاعت پذیر ہوا ۔ اس شعری مجموعے کو بے حد مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ اردو مضامین پر مشتمل ان کی دوسری کتاب ''کبھی پلٹ کر دیکھو''بھی سال 2018ء ہی میں شائع ہوئی۔ خالد شریف ''میرا محرم راز ''کے سرورق پر رقم طراز ہیں ''ثوبیہ خان نیازی ہونہار شاعرہ ہیں۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں تصوف کا رنگ نمایاں ہے۔
وہ جانتی ہیں کہ اول و آخر تمام مصائب و مسائل کا حل َخلاّقِ کائنات کے پاس ہے اسی لیے انھوں نے اس ذات سے لو لگائی ہے"۔
ساون کی طرح ٹوٹ کے برسی ہے محبت
وہ آیا تو موسم نے بھی انگڑائی سی لی ہے
ثوبیہ خان کی شاعری میں دردو کرب اوروصال و فراق کے علاوہ بھی نہایت خوب صورت اور دل کش مضامین میسر آتے ہیں ۔ ان کا شعری بیانیہ گہری فکر سے مزین اور آراستہ ہونے کے ساتھ ، ساتھ معنویت و مقصدیت سے بھر پور ہے۔
وہ بڑی سے بڑی اور گہری سے گہری بات کو عام فہم انداز میں بے تکلفی، عمدگی اور خوب صورتی کے ساتھ شعری پیرائے میں ڈھالنے کے فن پر خوب قدرت و مہارت رکھتی ہیں۔
روح میں اضطراب ازل سے ہے
یعنی اپنا یہ خواب ازل سے ہے
یہ تو فطرت ہے کیسے بدلوں اسے
یہ جھجھک یہ حجاب ازل سے ہے
کاش ہر شخص سمجھ پائے
دہر میں انقلاب ازل سے ہے
ثوبیہ خان نیازی کے بقول ''بچپن میں جب ساری ساتھ کی سکھیاں گرمیوں کی شاموں میں صحن میں کھیل کود رہی ہوتی تھیں تو میں اس دور میں اس انتظار میں ہوتی تھی کہ کب ''بابا جی اشفاق احمد ''کا پروگرام'' زاویہ'' نشر ہو اور میں سب کچھ چھوڑ کہ ٹی وی کے آگے بیٹھی رہوں، ان کی باتیں دل میں اترتی اور اثر کرتی تھیں۔
بانو قدسیہ ، قدرت اللہ شہاب اور میرے روحانی استاد حضرت واصف علی واصف ، ان شخصیات کو میں نے بہت ذوق سے پڑھا ہے۔ شاعری میں مولانا روم ، علامہ اقبال ، فیض احمد فیض، احمد فراز اور امجد اسلام امجد سے متاثر ہوں۔ خالد شریف ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، ضیا شاہد، اعتبار ساجد اور اردو کی معروف استاد اور اسکالر ڈاکٹر شہناز مزمل میرے اساتذہ میں شامل ہیں۔

آپ ہی دل کے مکیں صاحب
حسن ادراک و یقیں صاحب
وجد کرتی ہیں چاہتیں مجھ میں
آپ ہیں آیتِ مبیں صاحب
یہ جو خوشبو ہے چار سو میرے
آپ جیسے یہیں کہیں صاحب
ثوبیہ خان کی شاعری کی ایک بڑی خوبی اور خصوصیت یہ ہے کہ مطالعہ کرتے ہوئے روانگی اور تسلسل نہیں ٹوٹتا ۔ ایک بار جب قاری ورق گردانی شروع کرتا ہے توہر ایک غزل اور نظم کے بعد دوسری غزل اور نظم پڑھنے کی چاشنی ، لطافت اور کشش بڑھتی چلی جاتی ہے ۔
اندازِ بیان و سخن سادہ ، پُرکیف اور پُر اثر ہے ۔ تصنع اور بناوٹ سے دور ہے۔ بے ساختگی اور بے باکی کا رنگ غالب ہے۔ سچائی اور حقیقت کا رنگ جھلکتا ہے۔ اسی طرح آپ کے نثری مضامین بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پر مغز اور فکر انگیز ہیں ۔ خاص طور پر درج ذیل عنوان سے لکھے گئے ان کی کتاب'' کبھی پلٹ کر دیکھو'' میں شامل یہ مضامین سرشاری سے بھرپور ہیں ''محبت ''تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ''بابوں سے پیار ''کچھ پر اسرار خواب'' اور'' میری ذات ذرہ بے نشاں'' ۔

Browse More Urdu Literature Articles