کیا ہم انسان ہیں؟

پیر 27 جولائی 2020

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

کچھ روز قبل راولپنڈی میں تھانہ صادق آباد کی حدود میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس کو دیکھ کر انسانیت شرما گئی عرش الٰہی کانپ اٹھا پوری دنیا کے انسان اپنے انسان ہونے پر شرم محسوس کرنے لگے، بظاہر تو وہ دو سے منٹ کی ویڈیو تھی لیکن شائد ہی کوئی پتھر دل شخص ہو گا جس نے وہ ویڈیو مکمل دیکھی ہو گی، میں نے صرف اسکی تفصیل پڑھی ویڈیو دیکھنے کی ہمت نا ہوئی میں نے ڈیلیٹ کر دی،۔


واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک بد بخت ظالم بیٹے نے اپنی ماں کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا غلیظ ترین گالیاں دیں، اسکی بیوی ساتھ کھڑی اسے اس کام پر شاباشی دیتی رہی اور اس طرح ایک بار انسان کو اپنے انسان ہونے پر شک ہوا۔۔۔
ماں جی کا انٹرویو سنا انکا کہنا تھا یہ اکثر ایسا کرتا ہے میری بہو کے کہنے پر میرا بیٹا اکثر میرے ساتھ لڑتا اور تشدد کرتا ہے ، اس واقعہ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں مقامی پولیس نے کاروائی کی اس بد بخت کو گرفتار کیا اب دیکھتے ہیں قانون اسے کیا سزا دیتا ہے اور اللہ کی عدالت میں اسکے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے،
میں اس واقعہ کے بعد آج سے چودہ سو سال پیچھے جاتا ہوں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان مقامِ ابواء کی پہاڑیوں اور بیابانوں میں وہ جگہ جہاں م آقامدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا کی قبر مبارک ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر پہنچے ہزاروں کی تعداد میں ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ادھر ہی خیمے لگا لیے جائیں، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کی قبر مبارک پر تشریف لائے اور قبر کے سرہانے بیٹھ کر سر گھٹنوں میں لیکر اپنی والدہ کی جدائی میں ہچکیاں لے لے کر روئے حتیٰ کہ داڈھی مبارک بھی آنسو سے تر ہوگئی، یہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ماں سے محبت تھی کہ انکی جدائی میں اتنا روئے کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی عمر 6 سال تھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم  والدہ کے ساتھ سفر پر اسی مقام پر پہنچے تھے اُس وقت سارے جہانوں کے سردار  محسن انسانیت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی عمر مبارک 6 سال تھی جب ماں اور بیٹے میں دنیاوی جدائی اللہ تعالیٰ کے حکم سے آئی تھی آقا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم چھ سال کی عمر تھی جب والدہ ماجدہ حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا کا وصال ہو گیاتھا،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی بعض جگہ آتا ہے کہ میرے نبی پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  کاش میری ماں زندہ ہوتی اور میں عشاء کی نماز کے لئے مصلیٰ پر کھڑا ہوتااورسورۃ فاتحہ شروع کر چکا ہوتا ادھر سے میرے گھر کا دروازہ کھلتا اور میری ماں پکارتی بیٹا محمد  تو میں ان کے لئے نماز توڑ دیتا اور کہتا کہ لبیک یا اماں۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔
 اسلام میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے ساتھ ساتھ ماں باپ کے ساتھ احسانِ عظیم کرنے کا حکم دیا ہے قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر نازل کی گئی آخری کتاب ہے اور یہ کتاب ہدایت وانقلاب ہے اس میں ماں باپ سے حسن سلوک اور خدمت کا حکم اللہ تعالیٰ کی توحید اور عبادت کے ساتھ ساتھ دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اعمال میں اللہ کی عبادت کے بعد ماں باپ کی خدمت اور راحت رسانی مقام بلند کے حصول کا ذریعہ بنتی ہے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سے جب بڑے گناہوں کے بارے میں دریافت کیا گیا توآپ نے فرمایا خداکے ساتھ شریک ٹھہرانا ماں باپ کی نافرمانی و ایذارسانی کرنا کسی بندہ کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا (بخاری شریف)
والدین کے جواحسانات اولاد پر ہیں وہ تمام عمر کی خدمت سے بھی ادا نہیں ہو سکتے والدین نے پرورش کی،مشقتیں اٹھائیں وہ سب معروف اور معلوم ہیں اس کے باوجود اگر کوئی تنگ دل شخص والدین کے حقوق ادا نہیں کرتا اور انہیں دکھ دیتا ہے تو وہ درحقیقت ایمان کی حقیقی دولت سے محروم ہے،
آج ہم خود اپنا محاسبہ کر لیں کہ ہم کتنے فرمانبردار ہیں والدین کے کتنے حقوق پورے کر سکتے ہیں، حقوق پورے کرنا تو دور ہم تو انکے ساتھ ظلم و زیادتی کرتے ہیں،
ایک بار کسی شخص نے پوچھا کہ کیا ہم اپنی ماں کا بدلہ اتار سکتے ہیں کہ تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ سرد رات میں جب تم رات بستر پر پیشاب کر دیتے تھے ماں کو پتا چلتا تھا وہ اٹھتی تھی تمہیں صاف کرتی تھی پھر تمہیں خشک اور صاف جگہ پر سلاتی اور خود گیلی جگہ پر لیٹ جاتی تھی تم تو اپنی پوری زندگی میں صرف ایک اس رات کا بدلہ نہیں اتار سکتے، ماں کے بغیر گھر قبرستان ہے ماں کے قدموں تلے جنت ہے، میرے خیال میں جس شخص کی وجہ سے اسکی ماں کی آنکھوں میں آنسو آجائیں اس شخص کو جینے کا کوئی حق نہیں۔

۔۔  ہم اپنی پوری زندگی بھی ماں باپ کی خدمت میں گزار دیں تو ہم اپنے پیدا ہونے کا بدلہ نہیں اتار سکتے ہم کب سے اس قابل ہو گئے کہ ماں باپ کو سمجھا سکیں یا انکے آگے بول سکیں ان سے بحث کر سکیں۔۔۔۔
راولپنڈی والے واقعے کے بعد اپنا خود کا محاسبہ کریں کہ کہیں ہم بھی تو جانے انجانے میں اپنے ماں باپ کا دل تو نہیں دکھاتے کہیں ہم بھی تو اپنے ماں باپ کے ساتھ برا سلوک تو نہیں کر رہے، یاد رکھیں اس دنیا میں صرف دو رشتے آپکے مخلص ہیں اور وہ ہیں صرف ماں باپ اسکے علاؤہ سب جھوٹ ہے،
کوشش کیا کریں کہ ماں باپ کی خوشی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے فیصلے کریں کیونکہ جب ماں باپ خوش ہوتے ہیں تو اللہ خوش ہوتے ہیں، ماں کی بددعا سے بچا کریں کیونکہ یہ سیدھا عرش الٰہی پر جاتی ہے اسکے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا، روز کچھ وقت نکال کر اپنے والدین کے پاس بیٹھا کریں اس سے ماں باپ کبھی بوڑھے نہیں ہوتے اور ہم بھی ہمیشہ چھوٹے رہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :