سچ تو یہ ہے

ہفتہ 25 دسمبر 2021

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

ہمارے ملک میں شعور اور آگاہی کا اس قدر فقدان ہے کہ ہم اندازہ نہیں کر سکتے ہمیں من گھڑت قصے کہانیاں سچ لگتے ہیں جبکہ تحقیق اور سچ افسانہ لگتا ہے ہماری تربیت ایسے ماحول میں ہوئی  ہےجہاں جھوٹ کو گناہ نہیں سمجھا جاتا جہاں چوری کو جرم نہیں سمجھا  جاتا بلکہ چوری کرنے والوں کو لیڈر بنا کر پیش کیا جاتا ہے ہم لیڈر کے اصل معنی سے لاعلم ہیں ہم تو مجرموں کو بھی لیڈر کہتے ہوئے ان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں ہم ان کو بھی لیڈر کہتے ہیں جنہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا دیا ہےہم ان کو بھی لیڈر کہتے ہیں جو ملک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں ہماری بد قسمتی ملاحظہ کیجئے ہم ایسے لوگوں کو بھی لیڈر مانتے ہیں جو مغربیت سے متاثر اور لبرل کلچر کوپاکستان میں پروان چڑھانا چاہتے ہیں در اصل ہمیں علم نہیں ہے کہ لیڈر ہوتا کیا ہے اور لیڈر کسے کہتے ہیں،
پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں نوجوانوں کے درمیان غلط معلومات پھیلائی جاتی ہے جسے نوجوان بنا تحقیق کیے سچ مان لیتے ہیں کچھ لوگ بیرونی سازشوں کے تحت قائد اعظم کے خلاف من گھڑت باتیں پھیلاتے ہیں اور قوم کے جوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پاکستان  میں ابھی تک ایسے لوگ موجود ہیں جو تحقیق کے بعد لوگوں کو سچ بتاتے ہیں اور مختلف پراپیگنڈہ کو بے نقاب کرتے ہیں ایسے ہی چند عظیم لوگوں میں ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم تھے جو نظریاتی سرحدوں کے محافظ تھے اور جب جب پاکستان کی تاریخ اور خصوصاً قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت پر الزام لگانے کی کوشش کی گئی  تو سب سے پہلے ڈاکٹر صفدر محمود میدان میں آئے اور تحقیق کے بعد مدلل جواب دیا اللہ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے آمین، قائد اعظم اور پاکستان کے حقائق کو مسخ کرنے والوں کے جواب میں لکھی گئی ان کی کتاب "سچ تو ہے" میرے خیال میں پاکستان کے ہر نوجوان کو پڑھنی چاہیے اور خصوصاً آج کے سیاسی حالات میں اس کتاب کا مطالعہ بے حد ضروری ہے، وہ لکھتے ہیں کہ لیڈر ہو یا کوئی بھی اہم شخصیت، وہ اپنے کارناموں کردار، عظمت ایثار اور کامیابیوں سے تاریخ میں اور لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتی ہے، اور میرے خیال میں لیڈر کی تعریف بھی یہی بنتی ہے جس میں لیڈر اپنے ملک و قوم کی نمائندگی کرتا ہو اور اس کے کردار پر داغ نہ ہو، قائد اعظم حقیقی معنوں میں لیڈر تھے ان کے اے ڈی سی گل حسن کا بیان ہے کہ قائد اعظم بحثیت گورنر جنرل کبھی کبھار اتوار کو کراچی کے مختلف علاقوں میں چلے جاتے تھے ایک بار وہ ملیر سے واپس آرہے تھے ریلوے پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے رکنا پڑا قائد اعظم کے پیچھے صرف ایک کار کی اجازت تھی جس میں سیکورٹی آفیسر موجود ہوتا تھا اس کے علاوہ کوئی پروٹوکول نہیں، کار پھاٹک پر رکی تو گل حسن نے پھاٹک کھلوا دیا لیکن قائد اعظم نے یہ کہتے ہوئے پھاٹک دوبارہ بند کروا دیا کہ اگر میں قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو میں دوسروں سے یہ توقع کیوں رکھوں؟ آج آپ زرا اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے قریب سے گزر کر دیکھیں یا جب وزیر اعظم صاحب گزرتے ہیں تو کتنے قانون توڑتے ہیں کتنی گاڑیوں کا پروٹوکول ہوتا ہے ہمارے تو وزیراعلی 17 گاڑیوں کا پروٹوکول لیتے رہے ہیں ہم اور کس کی کیا بات کریں، قائد اعظم زیارت میں علیل تھے تو بھوک بہت کم ہو گئی ڈاکٹر الہیٰ بخش نے ایک ماہر باورچی کو لاہور سے بلوایا جس کا پکا ہوا کھانا قائد اعظم نے بڑی رغبت سے کھایا پوچھنے پر پتہ چلا کہ باورچی لاہور سے بلایا ہے، فوراً چیک بک منگوائی اور اس کا سارا خرچہ اپنی جیب سے ادا کیا تا کہ ملکی خزانے پر بوجھ نہ پڑے اور ہمارے آج کے حکمران ملکی خرچے پر اپنے پورے خاندان کو بیرون ملک دورے بھی کروا دیتے ہیں اور کوئی اف تک نہیں کرتا اور ہم  ان کو لیڈر کہتے ہیں حقیقت میں یہی ذہنی غلامی ہے،  رعنا لیاقت علی خان لکھتی ہیں کہ ایک بار مسلم لیگ کے اجلاس میں یہ تجویز پیش ہوئی کہ ہر سال انتخاب کی بجائے قائد اعظم کو مستقل صدر بنا دیا جائے، قائد اعظم نے سختی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور کہا کہ میں جمہوری اور آئینی روایات کے خلاف کچھ نہیں کروں گا میں ہر سال آپ کے سامنے پیش ہوں گا، یہی جمہوریت ہے لیکن کیا آپ کو لگتا کہ جس جمہوریت کو قائد اعظم خود پر لاگو کرتے تھے آج ہمارے سیاستدان ویسا کرتے ہیں؟ یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہو گا کیونکہ ہمارے سیاستدانوں نے جمہوریت کو دفن کر کے اقتدار کو گھر کی لونڈی سمجھ لیا ہے دو گھروں میں ہمارے ملک کی جمہوریت بٹی ہوئی ہے اور پچھلے تیس سال سے یہی ہو رہا ہے کیا یہ وہی جمہوریت ہے جس کی بنیاد پر ہمارا ملک بنا؟
قائد اعظم پریوی کونسل میں پریکٹس کرتے تھے اور لندن میں آباد ہو گئے  وہاں ایک خوبصورت گھر خرید لیا ہندوستان واپس آئے تو وہ گھر بیچ دیا اور پھر ساری زندگی ہندوستان یا پاکستان سے باہر کوئی اثاثہ نہ رکھا، اور اب ہمارے ملک میں ایسے سیاست دان بھی ہیں جن کا گھر بیوی بچے سب باہر ہیں جن کی دوائی بھی باہر سے ملتی ہے لیکن سیاست اور اقتدار پاکستان میں چاہیے کیوں کہ پاکستان کے عوام سوال نہیں کرتے اور نہ ہی کرپشن کو جرم سمجھتے ہیں،
قائد اعظم کو کچھ لوگ سافٹ لیڈر سمجھتے تھے جن سے ہر بات منوائی جا سکتی تھی لیکن شاید ان لوگوں نے قائد اعظم کی زندگی کو پڑھا ہی نہیں ہے اور اگر پڑھا ہے تو ولی خان کی لکھی ہوئی کتاب کو پڑھا ہو گا قائد اعظم کو سافٹ لیڈر کہنے والوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ 1918ء میں ممبئی کے انگریز حاکم سخت گیر اور متکبر گورنر  ولنگٹن سے ٹکر لی تھی جسے ممبئی کے شہریوں نے بلا مقابلہ امپیریل لیجسلیٹیو کونسل کا کارکن منتخب کر دیا تھا، جس قائد اعظم نے برطانوی وزیراعظم رامزے میکڈانلڈ کا ہاتھ جھٹک کر مصافحہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ میں آپ سے کبھی نہیں ملوں گا کیونکہ آپ نے مجھے سیاسی رشوت دینے جسارت کی ہے جس جناح سے ماؤنٹ بیٹن بات کرتے گھبراتا تھا جس قائد اعظم کے بارے میں امریکی پروفیسر اسٹینلے والپرٹ کا بیان ہے کہ جناح جیسا عظیم لیڈر تاریخ میں پیدا ہی نہیں ہوا، اس عظیم لیڈرکے بارے میں لوگوں کا کہنا کہ وہ سافٹ لیڈر تھے سمجھ سے بالاتر ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم کم از کم قائد اعظم کی مکمل زندگی کو پڑھیں اور اس کے مطابق پاکستان کا سسٹم بنائیں اس پر عمل کریں جو جناح کا خواب تھا ویسا پاکستان بنائیں ہمارے حکمران ایک اصول پسند، غیرت مند اور باکردار ہوں ہمارے ملک کے حکمران چوری سے نفرت کرتے ہوں قانون کی بالادستی قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور خود سب سے پہلے قانون کی پاسداری کریں، اقربا پروری سے جان چھڑائیں اور صحیح معنوں میں جمہوریت قائم کریں پاکستان کی عزت پر حرف نہ آنے دیں، جب یہ سب کچھ ہو گا تب ہم پاکستان کو ترقی کرتا دیکھیں گے اور ایسا ہو گا کیونکہ پاکستان نے قیامت کی صبح تک چمکتے رہنا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :