میزان عدل

جمعہ 10 دسمبر 2021

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

کلرک کی نوکری سے استعفیٰ دے کر وزارت داخلہ میں سٹینوگرافر کی ملازمت اختیار کر لی جوان تھے خواب بڑے تھے لیکن حالات ساتھ نہیں دے رہے تھے سٹینو کی نوکری میں اسلام آباد کے ناہموار راستوں پر سائیکل چلانا اور ساتھ تعلیم جاری رکھنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے، نوکری کے ساتھ قانون کی تعلیم مکمل کی اور سیاست میں ماسٹر مکمل کر لیا وزارت داخلہ میں سٹینوگرافر کی ملازمت کے دوران ماں دوپہر کے کھانے کے لیے ایک پراٹھا اور اچار کی ڈلی دیتی تھیں جسے کینٹین کے سالن والے پتیلے کے ساتھ لگا کر گرم کرتا اور کھا لیتا کبھی رب سے شکوہ نہیں کیا صرف شکر کیا اور دعا مانگی کہ جو میرے خواب ہیں ان کو پورا کر دے، یہ  صاحب سٹینوگرافر  کے ساتھ ساتھ تعلیم مکمل کر کے 1982ء میں سول جج تعینات ہوئے جی ہاں یہ اعجاز احمد بٹر صاحب ہیں انہوں نے مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے ہار نہیں مانی اور محنت کرتے رہے پھر سول سے سیشن جج بنے اور ریٹائرڈ ہوئے، حال ہی میں ان کی کتاب میزان عدل شائع ہوئی بڑی محبت کے ساتھ مجھے یہ کتاب بھجوائی اعجاز صاحب نے بڑی سادہ زبان میں اپنی کہانی بیان کی ہے جسے ہر شخص آسانی سے سمجھ سکتا ہے میرے خیال میں اگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں رہتے ہوئے کامیاب نہیں ہوا جاسکتا تو بڑی معافی کے ساتھ کہوں گا کہ وہ غلط ہیں، پاکستان میں بالکل کامیاب ہوا جا سکتا ہے جس کی زندہ مثال اعجاز احمد بٹر صاحب ہیں، اعجاز صاحب نے اپنی زندگی میں مشکل حالات بھی دیکھے لیکن ناامید نہیں ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم حالات کی تلخیوں سے گھبرا کر اپنے راستوں سے ہٹ جائیں تو کامیابیاں نہیں ملتیں نہ ہی سچائیوں کی رعنائیاں زندگی کے اندھیروں کو مٹاتی ہیں بلکہ حالات اور بھی دگرگوں ہو جاتے ہیں اور ہم محرومیوں کا ازالہ سیدھے راستوں پر چل کر ہی سکتے ہیں، کہیں سے گھبرا کر راستوں سے مڑ جانا ہمیں اور بھی پیچھے لے جاتا ہے جس سے مسافتیں بڑھتی جاتی ہیں اور منزل دور ہو جاتی ہے ہم ناکامیوں کے بھنور میں پھنستے چلے جاتے ہیں، اگر ہم سیدھے راستے کا تعین کر کے زندگی کے کٹھن راستوں سے  گزر جائیں تو پھر ان مشکلات سے آسانیوں کی کونپلیں پھوٹنا شروع ہو جاتی ہیں بس ہمیں اس بات کا ادراک کر لینا چاہیے کہ محنت کے پھول جب کھلتے ہیں تو ان کی خوشبو سے ہماری ہستی معطر ہو کر رہ جاتی ہے،
اعجاز صاحب کی پہلی تعیناتی تلہ گنگ میں ہوئی جہاں اپنے سینئرز سے مستفید ہوئے ان کے ساتھ چائے پینا، شام کو لانگ واک پر جاتےاور قانونی مشورے بھی لیتے، اسی طرح تلہ گنگ میں دو سال بطور سول جج فرائض انجام دیئے اعجاز صاحب ہر فن مولا ہیں ان کے بارے میں ان کے والد صاحب کا کہنا تھا کہ اعجاز دیگر بچوں میں  سے کچھ زیادہ ذہانت رکھتا ہے فن کتابت ہو یا شاعری، علم موسیقی ہو یا مصوری اعجاز احمد ایک ہمہ گیر شخصیت ہے، کلرک بنا پھر سٹینوگرافر اور پھر سول جج سے سیشن جج اور اب کالم نگار غرض اعجاز صاحب نے ہر کام کیا جو ان کے مزاج سے ملتا تھا،اعجاز صاحب سے میری بات ہوئی تو وہی پیار و محبت والا انداز جو ان کے کالم پڑھ کر لگتا ہے اور جن حالات میں رہتے ہوئے ترقی کی اور پھر عاجزی و انکساری کا نام ہیں، اعجاز صاحب نے ثابت کیا کہ پاکستان میں بھی کامیاب ہوا جا سکتا ہے شرط ہے کہ انسان کے پاس راستے کا تعین ہو اور سوچ بڑی ہو خواب بڑا ہو جس شخص کا کوئی خواب نہیں اس کا کوئی مستقبل نہیں اگر آپ بھی کامیاب بننا چاہتے ہیں بڑا آدمی بننا چاہتے ہیں تو آج سے ہی اپنی سوچ بڑھ رکھیں اپنے نظریات بڑے کریں اگر آپ خواب ہی نہیں دیکھتے تو ان کو پورا کیسے کریں گے، ایک شخص 1996ء میں سوچتا ہے کہ میں امریکہ کا صدر بنوں گا اور پھر اس سوچ کو پورا کرنے کے لیے محنت کرتا ہے تو تاریخ نے دیکھا کہ وہ شخص دو بار امریکہ کا صدر بنا اور دنیا اسے باراک اوباما کے نام سے جانتی ہے، جب تک آپ اپنی سوچ کو بلند مقام پر نہیں لے جاتے آپ کامیاب نہیں ہوسکتے دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہم سب کچھ کر سکتے اگر لگن سچی ہو راستے کا تعین درست ہو اور نیت خالص ہو ہم کر سکتے ہیں ہم کامیاب ہو سکتے ہیں، اعجاز صاحب نے مقابلے کا امتحان پاس کیا لیکن میرٹ پر نہ آسکے لیکن اللہ نے ان کو جج جیسا معزز منصب عطاء کرنا تھا اور ان کے ہاتھوں کئی اچھے  فیصلے ہونے تھے، ایک وقت تھا جب یہ پراٹھےپر اچار کی ڈلی رکھ کر کھاتے تھے اور سائیکل پر سفر کرتے تھے اور پھر ایک وقت آیا کہ یہ سیشن جج بنے اس طویل سفر میں صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے کہ انہوں نے ہار نہیں مانی یہ ایک طرف سے ہارتے تو دوسری جانب سے کوشش کرتے لیکن بیٹھے نہیں ان کا خواب تھا کہ میں نے جج بننا ہے یہ بن گئے آپ بھی جو سوچیں گے جس کام کے لیے محنت کریں گے آپ بن جائیں گے انسان کے پاس نظریہ ہو تو وہ نیلسن منڈیلا بھی بن جاتا ہے اور اگر اس کی سوچ ہی یہ ہو کہ میں نے صرف زندہ رہنا ہے کوئی مقصد نہ ہو تو اس کا دنیا میں آنا نہ آنا بے معنی ہے اس لیے دنیا میں آئے ہیں تو کچھ الگ کر کے جائیں آنے والوں کے لیے رول ماڈل بن کر جائیں کہ آپ کو تاریخ سنہرے حروف میں یاد رکھے، دنیا میں ہر سال تعلیمی اداروں سے ہزاروں کی تعداد میں طلباء تعلیم مکمل کر کے نکلتے ہیں لیکن دنیا ان میں سے چند ایک کو یاد رکھتی ہے باقی سب گمنام ہو کر رہ جاتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ مقصد کا نہ ہونا اس وقت دنیا میں ستانوے فیصد لوگوں کا کوئی واضح نصب العین نہیں ہے وہ بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو ناکام ہیں پریشان ہیں اور دوسروں سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں خواہشات ہر کسی کے پاس ہوتی ہیں مقصد، نظریہ کسی کسی کے پاس ہوتا ہے بڑے مقاصد زیادہ جوش و خروش پیدا کرتے ہیں مقصد وہ چیز ہے جو آپ پانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کا مستقبل بدل کر رکھ دے گا آپ دنیا کے بڑے لیڈروں کو دیکھ لیں ان کے پاس واضح مقصد تھا بغیر مقصد کے کوئی شخص کامیاب نہیں ہوتا اگر آپ واضح طور اپنے مقصد کو پہچان لیتے ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ کی کامیابی شروع ہو گئی آپ کا آگے بڑھنا ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے تو کیوں نہ ہم آج سے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور زیادہ دورنہیں اعجاز احمد بٹر صاحب کی زندگی کو ہی پڑھ کر سبق حاصل کر لیں کہ ایک متوسط شخص بھی ترقی کر سکتا ہے کلرک سے سیشن جج تک کا سفر کر سکتا ہے یہ ہمارے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے کہ کامیاب کیسے ہوا جاتا ہے ناکامیوں سے لڑنے کا ہنر کیسے سیکھا جا سکتا ہے اور ہم ہار نہ مان کر کامیاب کیسے ہو سکتے ہیں ہم اگر یہ سیکھ لیں تو ہم بھی اپنے مقام تک پہنچ سکتے  ہیں ہمیں بھی اپنی منزل تک پہنچنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی لیکن راستے کا تعین، محنت اور ہمت نہ ہارنا شرط ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :