
ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم اسباب اور سد باب
منگل 4 فروری 2014
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
کینٹ ڈویژٓن میں 41، صدر ڈویژن 37، ماڈل ٹاون ڈویژن میں 31، سول لائن ڈویژن میں 28، اقبال ٹاون ڈویژن میں 20 شہریوں کو قتل کیا گیا۔ سٹی ڈویژن میں 24 وارداتوں، صدر ڈویژن اور ماڈل ٹاون ڈویژن کی 22، کینٹ ڈویژن کی 20، سول لائن ڈویژن کی 19، اقبال ٹاون ڈویژن کی 9 وارداتوں کی انوسٹی گیشن نہیں ہو سکی۔
اخبارات میں شائع ہونے والی کرائم کی خبروں کو ہم نظر انداز کر کے گزر جاتے ہیں اس لیے کہ ان واقعات میں ہمارے ساتھ کوئی واقع نہین ہوا ہوتا یہی ہمارا مجموعی رویہ ہے لیکن جب ہمارے خود کے ساتھ کوئی واقع ہوتا ہے تو ہمیں اخبارات میں شائع ہونے والے واقعات اصل سے کم دکھائی دیتے ہیں ۔گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک واقعہ میری فیملی کے ساتھ پیش آیا تو محسوس ہوا کہ ہمارے دوست احباب جو کچھ کہتے ہیں وہ سب درست ہے ہوا کچھ یوں کہ ہماری بیگم گھر کا سود سلف خریدنے غالب مارکیٹ میں گئیں وہاں سودا سلف لے کر جب وہ گاڑی میں بیٹھنے لگیں تو اچانک وہ لڑکے ایک موٹر سائیکل پر آئے اور ان سے ان کا ہینڈ بیگ جو انہوں نے اپنے کاندھے سے لٹکایا ہوا تھا پر ہاتھ ڈالا اور کھینچنے لگے اس دوران ڈرائیور نے گاڑی بگھانے کی کوشش کی مگر بے سود ان لڑکوں نے ڈرائیور کو زد و کوب کیا اور بیگ چھین کر فرار ہوگئے اس واقعے کی اطلاع قریب ہی تھانہ غالب مارکیٹ کو کر دی گئی مگر پولیس کا روئیہ وہی راوئیتی تھا ان کا کہنا تھا کہ شکر کریں جان بچ گئی۔۔اس بات کا ہم نے شکر کیا کہ جان بچ گئی مگر سوال یہ ہے کہ حکومت اور حکومتی ادارے کیا کر رہے ہیں پولیس جرائم روکنے میں کیوں ناکام ہو چکی ہے؟ان سوالوں کے جواب ہمارے ارباب بست و کشاد کے پاس نہیں ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اس وقت پاکستانی عوام دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے نرغے میں ہے اگر دیکھا جائے تو فلحال اس سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی زمہ دار ر حکومت ہوتی ہے اور حکومت کی وجہ جوز بھی یہی ہے کہ وہ اپنے ملک کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے ساتھ انہیں پر امن ماحول مہیا کرے تا کہ وہ اطمینان قلب سے اپنے روز مرہ کے فرائض ادا کر سکیں لیکن حکومت اپنی یہ ذمہ دار پوری کرتی نظر نہیں آتی ،یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ سیکورٹی اداروں کا کاروبار فروغ پزیر کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ پرائیویٹ سیکورٹی اداروں کے کاروبار میں بڑئے بڑے لوگ ملوث ہیں جن کے کاروبار کے فروغ کے لئے ملک میں امن و امان کی مخدوش صورت حال ہی معاون ہے۔
کچھ عرصہ پیشتر وزیر اعلی پنجاب جناب میاں شہباز شریف نے جرائم پر قابو پانے کے حوالے سے خوش خبری سناتے ہوئے کہا تھا کہ امن امان میں بہتری کے لئے صوبے میں مانیٹرنگ کا نظام قائم کررہے ہیں اورصرف لاہور میں 3 ہزار سیکیورٹی کیمرے نصب کئے جا رہیں ہیں۔ یہ بات انہوں نے لاہور میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی تھی وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امن چاہتے ہیں، خواہش ہے کہ لوگ فرقہ واریت، شدت پسندی اور انتہاپسندی چھوڑ کر محبتوں کا پیغام پھیلائیں، شہرمیں جرائم کی روک تھام کے لیے نیا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم متعارف کرارہے ہیں، جس قسم کی فرانزک لیباریٹری بنائی گئی ہے اس کی مثال پورے خطے میں نہیں۔جرائم پیشہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ وزیر اعلی کی اس بات کو بھی تین ماہ اک عرصہ گزر چکا ہے مگر کوئی پیش فرت نظر نہیرہی جبکہ عوام نہ صرف لٹ رہے ہیں بلکہ دن دیہاڑئے لوٹے جارہے اور پولیس وی وی آی پی ڈیوٹی میں مصروف ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے قانون نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے ،مجرم بے خوف ہو چکے ہیں ۔یہ جو کہا جاتا ہے کے جرم اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ ہے کسی حد تک درست ہے مگر یہان جس طرح کے کرائم ہو رہے ہیں اس کے پیچھے غربت کم اور عیاشیاں زیادہ نظر آتی ہیں اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ لوٹ مار کی وارداتوں میں ملوث پائے جا رہے ہیں، ہم کہاں جا رہے ہیں اگر ہم نے معاشرئے کی تربیت صیح رک پر نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب ہر کوئی لٹے گا اپنوں کے اور غیروں کے ہاتھوں اس لئے ضروت اس امر کی ہے کہ معاشرے کو انارکی سے بچانے کے لئے حکومت ،ریاستی اداروں ،معاشرے اور والدین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہے تاکہ معاشرہ پر امن بن سکے ۔ اگر اب بھی سوچا نہ گیا تو پھر وقت ہاتھوں سے نکل جائے گا اور اس طرح کا غدر مچے گا کہ کچھ بھی سلامت نہیں رہے گا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.