کپورہ اینکر
بدھ 21 جون 2017
منظر بدلتا ہے غالباََ یہ پاکستان یا شائد دنیا کی سب سے بُری معاف کیجئے گا سب سے بڑی رمضان نشریات کے مناظر ہیں ۔ میزبان نما مداری ایک درمیانے درجے کے ہوٹل کے باورچی کے حلیے میں لہک لہک کر گا رہا ہے ” کپوروں کی کٹاکٹ تیار ہو چکی ہے “(نشریات کے شرکا کی تالیوں کی گونج اور تحسین کا شور)۔اس کے بعد مزا ح سے خالی لیکن تضحیک سے بھرپور چند جملے اور پھرایک پرجوش نعرہ ” کپورہ تحریک زندہ باد“( افسوس !ایک بار پھر پروگرام میں شریک شرکا کی تالیاں اور تحسین کا شور)۔
(جاری ہے)
عجیب بدذوق قسم کی ویڈیو تھی لیکن کسی دوست نے بھیجی تھی اورہم نے اپنے صحافتی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے دیکھا ۔ واٹس ایپ پر پیمرا کے ایک انتہائی ذمہ دار صاحب کو یہ ویڈیو اس سوال کے ساتھ بھیجی کہ ”کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں “۔کچھ ہی دیر بعد ٹکا سا جواب ملا JUDGES KNOW BETTER۔
میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے اس ایک نمبر اینکر ،میزبان ، مذہبی سکالر،سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاراور بزعم خود صدر (اس صدارت کے لئے ریاست کا ہونا ضروری نہیں ،آخر جوناگڑھ ریاست کے نواب بھی تو موجود ہیں )کو ماہرین نفسیات کے ایک بورڈ کے حوالے کردیا جائے تو وہ موصوف کے بارے میں متفقہ رائے کا اظہار کریں گے ،یہ متفقہ رائے کیا ہو سکتی ہے اس کا اندازہ ہر قاری اپنی اپنی ذہنی سکت کے مطابق لگا سکتا ہے ۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ محترم ابصار عالم کے پیمرا کا سربراہ بننے کے بعد ادارے میں جو ایک ذمہ دار تحرک سامنے آیا اس سے بہت سے میڈیا ہاوٴسز شاکی بھی ہیں لیکن قوم کا ایک بڑااور سنجیدہ طبقہ بجاطور پر یہ سمجھتا ہے کہ ٹیلی ویژن سکرین پر جو کچھ آج دکھایا جارہا ہے اس پر CHECK AND BALANCEکا ایک موٴثر نظام ضرور ہونا چاہیے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی غیر اخلاقی مواد کے نشر ہونے یا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اِدھر پیمرا ایک نوٹس یا شوکاز جاری کرتا ہے اُدھرعدالت سے ایک سٹے آرڈر جاری ہوجاتا ہے ، ہُن کر لو جو کرنا۔
ایک وقت تھا جب ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر ایک لفظ یا چند لمحوں کا ایک منظر بھی کڑی نگرانی سے گزارے بغیر نشر نہیں کیا جاتا تھا اور یہی وہ دور تھا جب ریڈیو اور ٹی وی نے شاہکار تخلیقات کے ڈھیر لگائے جن میں تفریح کے ساتھ ساتھ معاشرتی تعمیر کا پہلو بھی نمایاں ہوتا تھا۔ کچھ ایسا ہی حال صحافت کا تھا ،نجی چینلز کی عدم موجودگی میں پی ٹی وی پر خبروں کے الفاظ اور مناظر کا چناوٴ اس قدر احتیاط سے کیا جاتا کہ کسی قسم کی سنسنی یا ہنگامہ خیزی کا تصور تک نہ تھا۔ اخبارات میں ہر خبر کے ہر لفظ پر نگرانی کا ایک کڑا نظام تھا،رپورٹرخبر فائل کرتا جسے سب ایڈیٹر کی عقابی جانچ سے گزرنا پڑتا ،خبر کی ابتدائی تیاری کے بعد اسے سینئر سب ایڈیٹر ز دیکھا کرتے اور آخر میں ایڈیٹر ایک ایک خبر کی جانچ پڑتال کے بعد اسے اخبار کے صفحے کی زینت بنانے کی سند عطا کرتا ۔لیکن یہ وہ دور تھا جب صحافت کی حیثیت ایک صحیفے سے کم نہ تھی اور غربت کے باوجود صحافی کی ساکھ کسی بھی چیز سے زیادہ مقدم تھی ۔ آج کے دور میں تو خبر کا اعزاز یہ ہے کہ صرف ایک دن بعد وہ گلی کی نکڑ پر کھڑی ریڑھی کے پکوڑوں کا لباس ہوجاتی ہے ۔ نجی چینلزکا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے جہاں عوام کو سماجی اور سیاسی شعور عطاکیا ہے وہیں ایک حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ بہت کم چینلز ایسے ہیں جہاں پیشہ وارانہ تقاضوں کے مطابق فعال ایڈیٹوریل بورڈ ز خبروں اور حالات حاضرہ کے پروگرامز کے مواد کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں ورنہ بریکنگ اور ریٹنگ کے چکر نے صحافت کو بھی کاروبار میں تبدیل کردیا ہے ۔ حالات یہ ہیں کہ ایک خبر جس طرح رپورٹر فائل کرتا ہے بجلی کی رفتار کے ساتھ چند ہی لمحوں بعد وہ اسی حالت میں یا تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ سکرین پر نمودار ہوجاتی ہے۔ پاکستانی چینلز کا حال دیکھا جائے تو گورے کی عقل کو داد دینے کو جی چاہتا ہے جس نے ٹیلی ویژن کو IDIOT BOXکا نام دیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ کسی حادثے یا سانحے کی صورت میں بھی ایسے مناظر سکرین پر دکھائے جاتے ہیں جو ذہنی اور سماجی مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔ہر کوئی آزاد صحافت کا علمبردار ضرور ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن پیشہ وارانہ اور قومی ذمہ داری بھی تو کسی بلا کا نام ہے یا نہیں ؟ حالیہ تاریخ میں آپ نو گیارہ کے سانحے کو ہی لے لیجئے جس میں ہزاروں انسان لقمہ اجل بن گئے لیکن کسی ٹیلی ویژن کی سکرین یا اخبار کے صفحے پر آپ کو کوئی کٹی پھٹی یا خون آلود لاش کی تصویر یا فوٹیج دیکھنے کو نہیں ملی ہوگی ۔ لیکن اگر آپ اس کا موازنہ پاکستان سے کریں تو دہشتگردی کے واقعات کی رپورٹنگ کے دوران جس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ کسی بھی طرح صحافتی پیشہ وارانہ یا قومی اخلاقیات کے تقاضوں کے مطابق نہیں ۔ رپورٹنگ کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے تو یورپ ،امریکہ ،چین یا کوریا میں کسی حادثے کی صورت میں پولیس ایک لائن لگا دیتی ہے میڈیا کے افراد جسے پھلانگنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کی رپورٹنگ میں بھی اس قدر بد احتیاطی کا مظاہر ہ کیا جا تا ہے کہ صحافیوں کی ایک فوج ظفر موج پولیس اور امدادی اداروں کی طرف سے لگائی گئی تمام تر رکاوٹیں پھلانگ کر عین دھماکے کی جگہ پرمٹر گشت کرتی نظر آتی ہے جس کا کم از کم اوریقینی نقصان یہ ہوتا ہے کہ انتہائی اہم شواہد ضائع ہوجاتے ہیں اور خود صحافیوں کی جان بھی مسلسل خطرے میں ہوتی ہے ۔ خروٹ آباد کا واقعہ اگر آپ کو بھول گیا ہو تو ذرا یوٹیوب پر مختلف چینلز پر چلنے والے مناظر دیکھ لیجئے جن میں نہتے افراد کو فائرنگ سے مرتے دکھایا گیا۔ ٹی وی سکرینوں پر یہ مناظر کسی غلطی کا شاخسانہ نہیں تھے بلکہ بار بار دکھائے جاتے رہے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز تک نہ گونجی ۔ حد درجہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے رویوں کو عوام کے ایک بڑے طبقے کی دانستہ یا نادانستہ قبولیت حاصل ہے یعنی
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.