مجید امجد کا فکری مورال اور زاہد سیال کا تراشیدہ خیال

منگل 18 دسمبر 2018

M.Iqbal Sial

ایم اقبال سیال

بیسویں صدی میں جہاں اردو شاعری کی دیگر اصناف نے ایک نئے انداز میں انگڑائی لی وہاں فن نظم کے خوابیدہ ہنر نے بھی نئے جوش و ولولہ نئی تازگی اور نئے جوبن و عنفوان کا لباس زیب تن کئے اوج کمال کی دہلیز پر دستک دی کاروان ادب میں شامل ہونے والے نئے طبع آزماؤں کو متعدد چیلنجز کا سامنا تھا جن میں عنوان و موضوعات کی بوسیدگی فکر و خیال کی یکسانیت تنوع مزاجی سے دوری نتائج و اہداف کا ڈھیلاپن انسانیت کو درپیش اصل مسائل سے چشم پوشی اور روایتی انداز بیان سے چمٹے رہنے کا مرض کہن نمایاں تھے اس میدان میں نووارد ارباب فکر و دانش نے ان فکری اڑچنوں کو بجا طور پر محسوس کرتے ہوئے سدباب کا بیڑا اٹھایا اور دیکھتے ہی ہی دیکھتے مقاصد برآری کی نیّا پار لگا دی ان نئی کاوشوں کی بدولت ایسا بہت کچھ دیکھنے کو ملا فکر و فن کو بال و پر ملے عنوانات و موضوعات کو نئے بانکپن کی روحانیت میسر آئی شاعری کا محور جمالیات کی بجائے ایک عرصے تک نظر انداز کیے جانے والی انسانی اقدار ٹھہرا اہداف و مقاصد اور نتائج و عواقب کے اطوار بدل گئے نظم پابندی کی بیڑیاں اتار کر آزاد فضاء میں سانس لینے لگی میر و غالب ولی دکنی اور دیگر اصحاب فن غزل پر فریفتہ ہو رہے تھے جبکہ اقبال نے نظم کو عروج بخشا اور خود بھی رفعت و عروج پر کمند ڈالنے میں سرخرو ہوئے میرا جی فیض احمد فیض اور ان کے نقش قدم کو مشعل راہ قرار دے کر میدان افروز ہونے والے ن میم راشد، ڈاکٹر خورشید رضوین، ظفر اقبال، عباس تابش، احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا نے جس قدر بھی رنگ جمایا یہ پہلو تشنہ طلب ہی رہا کہ اقبال کی نظمیہ جولان گاہ کو بیسویں صدی کے پیٹے میں کسی صاحب فن نے اپنے مست خرام قدموں کی آہٹ سے مرتعش کیا ہے یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے والوں کو ادبی ماحول اور کیف و سرود میں رچے بسے پُر رونق در و بام سے نہیں مل سکا بلکہ تسلی بخش اور اطمینان آمیز جواب ملا تو اس حوالے سے سنسان و ویران اور صحراء نما جھنگ سے ملا جہاں فنی معراج کی قد آور سیڑھیاں مجید امجد کی پاءبوسی کےلئے گویا برسوں سے منتظر تھیں بات چل نکلی ہے تو کیوں نہ اس جانب توجہ ہو جائے کہ اقبال سمیت جن شعراء نے نظم کو ذریعہ اظہار بنا کر طبع آزمائی کو مشن بنایا ان عظیم شعراء اور مجید امجد کے مابین مابہ الامتیاز فرق کیا ہے کوئی بھی ادب کا طالبعلم اس سوال پر غور کیے بغیر رہ نہیں سکتا اور غور کا تقاضا یہ ہے کہ اس موضوع پر غور کرتے ہوئے ہوئے موضوع بحث بنتے پہلوؤں کو نہایت دقت نظری سے جانچا جائے میری ذاتی رائے  کے مطابق میرا جی، جوش، ن میم راشد، ڈاکٹر وزیر آغا، احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر خورشید رضوی کا پیرایہ فکر اور زاویہ نگاہ بلند آں ہونے کے باوجود توثیق و اعتبار کے لحاظ سے اتنے وزن کا حامل نہیں کہ انہیں مجید کے ساتھ ترازو کے دوسرے پلڑے میں تولا جائے ۔

(جاری ہے)

آ جا کے ایک اقبال کا نام بچتا بھی اور جچتا بھی ہے لہذا موضوع سخن مؤخر الذکر شعراء کے گرد ہی گردش کناں رہے گا یہی مطمع نظر ہے اور یہی مناسب حال بھی ۔
بعض ناقدین فن کا خیال ہے کہ اقبال نے فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے فقط ایک موضوع کو ہدف ٹھہرایا چنانچہ ان کی شاعرانہ تگ و دو کی ہر تان اسی موضوع کو ثریا رساں کرنے پر آ کر ٹوٹتی ہے جس کی بناء پر فکر موضوعاتی تنوع کی صدائیں دیتی سنائی دیتی ہیں مگر یہ صدائیں صدا بصحراء ثابت ہو کر فنا ہوتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ مجید امجد کے ہاں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

موضوع اگرچہ ان کے ہاں بھی ایک ہی ہے اور وہ ہے انسانی اقدار کی بازیابی مگر انسانی اقدار کا اتھاہ سمندر چونکہ اپنے اندر انسانیت کے نام موسوم تمام دکھڑوں کو سموئے اور سمیٹے ہوئے ہے لہذا اسکے ہاں کبھی رفعت انسانی کا طوطی بولتا ہے کبھی آزادی کا خون کھولتا ہے کبھی غیرت کا جذبہ ابھرتا ہے کبھی خودی کا روپ نکھرتا ہے کبھی عشق دامن بھرتا ہے کبھی نارسائی کا دکھ مچلتا ہے کبھی وہ غربت کے آنسو پونچھتا ہے کبھی دولت کے لتے لیتا ہے تو کبھی معرفت کے رنگ دھنک سجاتے ہیں اس کے ہاں کرّ و فر اور شان و شوکت کی پرِکاہ برابر بھی حیثیت نہیں مگر ناداری کی عظمت بےپایاں ہے الغرض مجید امجد کے ہاں انسانیت کو درپیش جن تلخیوں کو زیب لساں کیا گیا ہے وہ ایک موضوع کے اندر کئی موضوعات کی بساط بچھائے ہوئے ہے اس کی آغوش فکر میں پناہ گزیں انسان اقبال کے انسان کی مانند فقط( مسلمان) نہیں بلکہ ان کے ہاں موجود انسان ایک طرح سے اگر ممدوح تو دوسری طرح سے مذموم وہ مظلوم انسان کے گلے میں بانہیں ڈال کر نوحہ بلند کرتا ہے چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی مذہب کسی قبیلے اور کسی بھی کونے سے ہو شاید یہی وجہ ہے کہ اقبال کے ہاں جو انسان ہدایت یافتہ ہونے کی وجہ سے باعث فخر ہوتا ہے کل وہی انسان گمراہی کی سان پر چڑھ قابل نفرت بن جاتا ہے یعنی مجید امجد کے ہاں انسان قابل نفرت تب ہوتا ہے جب وہ  آدمیت اور انسانیت کےلئے باعث زیاں ہوتا ہے جبکہ اقبال کے ہاں عقیدہ و تصور کا ٹیڑھ تنزلی کا باعث ہے لہذا ان کے ہاں اگر کوئی انسان ایک خاص مکتبہ فکر سے وابستہ ہوتا ہے تو چاہے اسکی وابستگی دکھلاوے کے طور پر ہی ہو اور وہ ذاتی کردار کے آئینے میں چاہے جس قدر مذموم عزائم کا حامل ہو تو بھی وہ ممدوح ہی ہے اور دوسری طرف ایک انسان کردار و گفتار کا جس قدر اجلا ہو تو وہ مذموم ہی ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال جب صوفی ازم کے نغمہ خواں تھے تو لکیر کی دوسری جانب تمام لوگ ان کی نظر میں شیطان تھے پھر وہ صوفی ازم سے تائب ہوئے تو اونٹ دوسری کروٹ بیٹھ گیا اور جب وہ اشتراکیت کے مدح سرا تھے تو اس فکر کے مخالف انکے ہاں ابلہ و فر و مایہ تھے پھر جب وہ اس نظام سے اکتا گئے تو ازاں جانب کے متوسلین ان کے ہاں پستیوں میں جا گرے یعنی ان کے پاتال فکر میں ایک بھونچال ہے اور مجید امجد کے ہاں ہر آن اطمینان کا اندوختہ۔

انہوں نے تصوراتی حصار کی ایسی لکیر کھینچی جو کسی وقت بھی انہیں تائب ہونے پہ مجبور نہیں کرتی۔
بات شاید کچھ طویل ہو گئی شاعر جب فکری یا ادبی میدان میں قدم رکھتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ غیب سے مضامین جب اسکے خیال کی سرزمین پہ اترتے ہیں تو اسکے پیچھے کوئی نہ کوئی ناکامی موجود ہوتی ہے۔ مجید امجد کے شاعرانہ پس منظر پہ کیا تھا زاہد سیال نے اسے یوں سپرد قلم کیا ہے ۔

مجید امجد کی زندگی میں ایک جرمن خاتون ”شالاط“ نے محبت کے جذبات کو مہمیز کیا ۔ شالاط ایک ٹورسٹ جرمن خاتون تھی۔ یہ 1958کا واقعہ ہے جب شالاط ساہیوال آئی اس خاتون کو عالمی ادبیات ،فنون لطیفہ اور آثار قدیمہ سے گہری دل چسپی تھی وہ ساہیوال کے قریب واقع ہڑپہ کے کھنڈرات دیکھنے آئی تھی ۔اس موقع پر اس کی ملاقات مجید امجد سے ہوئی ۔ مجید امجد کی شاعری اس کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر گئی ۔

مجید امجد اور شالاط کی یہ رفاقت 83 دنوں پر محیط ہے مگر اس عرصے میں وہ دل کی بات لبوں پر لانے سے قاصر رہے ۔ لفظ سوجھتے تو معانی کی بغاوت سد سکندری بن کر اظہار کی راہ میں حائل ہو جاتی ۔ مجید امجد نے شالاط کو کوئٹہ تک پہنچایا اور اسے خداحافظ کہا اس آس پر کہ جانے والے شاید لوٹ آئیں لیکن شالاط نے تو جا کر مستقل جدائی مجید امجد کی قسمت میں لکھ دی ۔

تقدیر کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں انسانی تدبیر کسی طور بھی ان کو بدل نہیں سکتی ۔ تقدیر اگر ہر لمحہ ہر آن انسانی تدابیر کی دھجیاں نہ اڑا دے تو اسے تقدیر کیسے کہا جا سکتا ہے ۔ شالاط کی مستقل جدائی نے مجیدامجد کی زندگی پر دور رس اثرات مرتب کیے ۔
ناصر شہزاد نے اس خوبصورت خاتون کو دیکھا اور امجد کے انتخاب کی داد دی لکھتے ہیں:
وہ لڑکی خاصی صبیح اور سجیع تھی، گہری گہری، ٹھہری ٹھہری، صاف اور شفاف جھیلوں کی طرح ہلکی ہلکی، نیلی اور نشیلی آنکھیں، اٹھتا ہوا قد جو بے حد پر کشش تھا۔

خوش پوشاک اور بن بناوٹ میں مدھ ماک" تیراسی (83) دن قیام کے بعد جب وہ اس شہر کو چھوڑ کر جانے لگی تو مجید امجد کوئٹے تک اس کے ساتھ گئے۔ اس کے لئے چوڑیاں خریدیں مگر اس تحفے کو پیش کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ واپسی پر چوڑیاں صابر کنجاہی کے حوالے کردیں کہ کسی اپنی سہیلی کو دے دینا۔ شالاط کی مستقل جدائی نے مجید امجد کی زندگی پر دور رس اثرات مرتب کئے۔

 
ان کی شاعری پر بھی اس کا واضح پرتو محسوس ہوتا ہے مجید امجد کی یہ نظم جو 22 نومبر 1958کو شالاط کی جدائی کے موقع پر کوئٹہ سے واپسی پر لکھی گئی ایک حساس شاعر کے سوز دروں اور قلبی کیفیات کی مظہر ہے ۔
"کوئٹے  کوئٹے تک
صدیوں سے راہ تکتی ہوئی گھاٹیوں میں تم
اک لمحہ آ کے ہنس گئے ، میں ڈھونڈھتا پھرا
ان وادیوں میں برف کے چھینٹوں کے ساتھ ساتھ
ہر سُو شرر برس گئے ، میں ڈھونڈھتا پھرا
راتیں ترائیوں کی تہوں میں لڑھک گئیں
دن دلدلوں میں دھنس گئے میں ڈھونڈھتا پھرا
راہیں دھوئیں سے بھر گئیں میں منتظر رہا
قرنوں کے رخ جھلس گئے میں ڈھونڈتا پھرا
تم پھر نہ آ سکو ، بتانا تو تھا مجھے
تم دور جا کے بس گئے ، میں ڈھونڈھتا پھرا
برس گیا بہ خراباتِ آرزو ، ترا غم
قدح قدح تری یادیں ، سبو سبو ترا غم
ترے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں سُو بہ سُو ترا غم
غبارِ رنگ میں رس ڈھونڈھتی کرن ، تری دھن !
گرفتِ سنگ میں بل کھاتی آبجُو ترا غم
ندی پہ چاند کا پرتو ، ترا نشانِ قدم
خط سحر پہ اندھیروں کا رقص ، تُو ، ترا غم
ہیں جس کی رَو میں شگوفے ، وہ فصل سَم ، ترا دھیان
ہے جس کے لمس میں ٹھنڈک ، وہ گرم لَو ترا غم
نخیلِ زیست کی چھاؤں میں نَے بلب تری یاد
فصیلِ دل کے کلس پر ستارہ جو ترا غم
طلوعِ مہر ، شگفتِ سحر ، سیاہی شب
تری طلب ، تجھے پانے کی آرزو ، ترا غم
نگہ اٹھی تو زمانے کے سامنے ترا روپ
پلک جھکی تو مرے دل کے روبرو ترا غم
نومبر 1958ء

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :