
کچھ بَن نہ پڑا
پیر 9 مئی 2016

پروفیسر رفعت مظہر
ہمارے کپتان صاحب تو اپنے سابقہ ”سالے“ کی انتخابی مہم کے لیے لندن بھی گئے اور وہاں جا کر پاکستانی کمیونٹی میں زیک سمتھ کی کنویسنگ بھی کرتے رہے لیکن کچھ بَن نہ پڑا۔
(جاری ہے)
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
جاتا جبکہ وزیراعظم کہہ بھی چکے کہ اگر چیف جسٹس چاہیں تو ان کا اور ان کے خاندان کا سب سے پہلے احتساب کر لیں۔ لیکن کپتان صاحب کا موڈ احتساب نہیں انتشار کا ہے۔
لاہور میں حکومت کی طرف سے اجازت نہ ملنے کے باوجود انھوں نے مال روڈ پر محفل سجا ڈالی لیکن ہوا یہ کہ وہاں چشمِ فلک نے وہ کچھ دیکھا کہ سر ندامت سے جھک گئے۔ حسبِ سابق اور حسبِ عادت خاں صاحب نے عورتوں سے بدتمیزی کا الزام ”کھٹاک“ سے نوازلیگ پر دھر کر اسے سازش قرار دے دیا۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں یومِ تاسیس کے موقعے پر بدنظمی اور خواتین سے بدتمیزی پر خاں صاحب معافی مانگ چکے۔ اپنے جلسوں میں اس صورتِ حال سے گھبرائے ہوئے خاں صاحب نے فیصل آباد میں اتوار 14 مئی کو ہونے والے جلسے کی منسوخی کا اعلان کر کے اب خیبرپختونخواہ کا رخ کر لیا ہے۔ وہاں ان کی پولیس بھی اپنی ہے اور صوبائی حکومت کے وسائل بھی اپنے۔ اب وہ 9 مئی کو پشاور اور بعدازاں بنوں میں جلسے کرنے جا رہے ہیں۔
ادھر ہمارے میاں نوازشریف بھی جلتی پر تیل ڈالنے کے ماہر ہیں۔ انھوں نے سکھر میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”دہشت گردی اور دھرنوں میں کیا فرق ہے؟ دونوں ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ دھرنوں اور ایجی ٹیشن کے ذریعے سڑکیں بلاک کر کے پاکستان کو اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ دھرنے نہ ہوتے تو راہداری منصوبہ پہلے مکمل ہو چکا ہوتا۔ پاکستان جب بھی ترقی کرنے لگتا ہے کچھ لوگ وار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔“ انھوں نے قائدِحزب اختلاف سید خورشید شاہ کو نام لے کر انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ”خورشید شاہ سے کہتا ہوں میرے دوست! ہم تمھارے علاقے میں پُل بنا رہے ہیں اور تم ہمارے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہو، ایسا کیوں بھائی؟ جواباً مرنجاں مرنج سیدخورشید شاہ نے کہا ”ہم نے وزیراعظم سے استعفیٰ نہیں مانگا، انھیں غلط گائیڈ کیا گیا ہے۔ البتہ دہشت گردوں اور سیاسی مخالفین کو ایک قرار دینا درست نہیں۔“ ہم سیدخورشید شاہ سے دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ سیاسی مخالفت جب ملکی مخالفت میں ڈھل جائے تو اسے دہشت گردی نہ کہیں تو کیا کہیں؟ آج پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی ایک صفحے پر ہیں لیکن اگست 2014ء میں جو کچھ ہوا، اس کے شاہ صاحب عینی شاہد بھی ہیں۔ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا وہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی جس کا نظارہ 2014ء میں پوری قوم نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں کیا؟ کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی کہ چین کے صدر کو انہی دھرنوں کی وجہ سے اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا؟ کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی کہ پارلیمنٹ کے گیٹ توڑ کر اس کے لان پر قبضہ کر لیا گیا؟ کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی کہ پی ٹی وی پر ”سونامیوں“ نے قبضہ کر لیا؟ کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی کہ خود کپتان صاحب نے ایک تھانے میں جا کر اپنے کارکنان کو زبردستی چھڑوا لیا؟ اور کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں تھی کہ وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی؟ اگر یہ دہشت گردی نہیں تھی تو پھر شاہ صاحب ہمیں دہشت گردی کا مطلب سمجھا دیں۔ آج شاہ صاحب انہی لوگوں کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں، جن کے بارے میں ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ بات اگر ٹی او آرز کی ہے تو اس پر تو حکومت بھی بات کرنے کو تیار ہے لیکن کیا یہ کھلی دہشت گردی نہیں کہ کپتان صاحب کہتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ نے حکومتی ٹی او آرز کے تحت کمیشن بنایا تو ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ کیا دنیا میں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت پر بھی اعتماد نہ کیا جائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.