طالبان کیخلاف آپریشن ،جلدبازی نہیں

بدھ 19 فروری 2014

Qasim Ali

قاسم علی

اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ حکومت کو عوام نے ان کے معاشی اصلاحات اور ملک میں امن و امان قائم کرنے کے وعدوں کی وجہ سے منتخب کیا ہے تو غلط نہیں ہوگا یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اپنے ان وعدوں کا پاس کرتے ہوئے طالبان سے مزاکرات کا فیصلہ کیابیشک یہ نواز حکومت کا ایک مشکل فیصلہ تھالیکن بہرحال اس کی شدید ضرورت تھی اب اس صورتحال کی ذمہ داری پرویزمشرف پرڈالی جائے کہ جس کے افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دینے ،لال مسجد آپریشن اور اکبربگٹی قتل جیسے بزدلانہ اور احمقانہ فیصلوں نے پاکستان کی تنزلی کا سفر مزید تیز کردیا یا زرداری حکومت کو مطعون کیا جائے کہ جس نے نہ صرف مشرف کے فیصلوں کو برقراررکھتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف نام نہاد اور دراصل امریکی مفادات کی جنگ کو جاری رکھا بلکہ اس دور حکومت میں امریکہ کو پاکستان میں جس طرح کھل کھیلنے کی آزادی میسر رہی ایسی پہلے کبھی اسے حاصل نہیں رہی تھی ۔

(جاری ہے)

اس تناظر میں جب موجودہ حکومت نے ملکی سلامتی ومفاد عامہ کے پیش نظر طالبان سے مزاکرات کا فیصلہ کیا اور 27جنوری کو میاں نوازشریف نے حکومتی کمیٹی کا اعلان بھی کردیا تو اس فیصلے کو ہر محب وطن اور امن پسند پاکستانی نے پسند کیا ۔بہرحال طالبان کی جانب سے بھی ایک کمیٹی مقرر کردی گئی اور یوں مزاکرات کا آغاز ہوگیا اگرچہ یہاں بھی بعض حلقوں کی جانب سے مزاکرات کو غیر موثر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ دونوں کمیٹیاں بااختیار نہیں حکومتی کمیٹی پہلے اپنی رپورٹ میاں نوازشریف کو پیش کرتی ہے اور وہ فوج سے مشاورت کے بعد فیصلہ کرتے ہیں اسی طرح دوسری جانب طالبان کمیٹی بھی طالبان کی شوریٰ سے مشاورت کے بغیر آگے نہیں چل سکتی لیکن اس سب کے باوجود مزاکرات کو اکثرجماعتوں کی جانب سے تحسین کی نظر سے دیکھا گیا کہ کم از کم وونوں جانب سے سہولت کاروں کے ذریعے ہی سہی بہرحال امن کیلئے کوششیں تو شروع کیں گئیں۔

اس سلسلے میں گزشتہ ہفتہ خاصا اہم رہا جب مزاکرات کے دوران ہی طالبان کی جانب سے پشاور میں پہلے سینما اور ہوٹل پر حملے کئے گئے اور بعد ازاں کراچی میں پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے کی ذمہ داری بھی طالبان کی جانب سے قبول کرلی گئی جس کے بعد طالبان اور حکومتی کمیٹیوں پرپر دباوٴ بڑھ گیا کہ وہ فریقین کو فوراََ جنگ بندی کا اعلان کرنے پر رضامند کریں جس کے بعد دونوں کمیٹیوں کی ملاقات ہوئی اور قوم کوجلد ہی سیزفائر کی صورت میں خوشخبری سننے کو ملے گی جس کا قوم انتظار بھی کررہی تھی کہ گزشتہ روز طالبان کی جانب سے 23ایف سی اہلکاروں کی شہادت کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوتی نظرآرہی ہے اورہرطرف سے آپریشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اگرچہ طالبان کی جانب سے یہ عمل انتہائی سفاکانہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور خصوصاََ ایک ایسے وقت میں جب مزاکرات انتہائی اہم موڑ میں داخل ہوچکے تھے ایسی حرکت مزاکرات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے مگر یہاں طالبان کے موقف کو میڈیا بہت کم پیش کررہاہے کہ حکومت کی جانب سے بھی مزاکرات میں غیرسنجیدگی دکھائی جارہی ہے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ حکومت نے ان کے قیدیوں جن میں عورتیں بھی شامل ہیں کو قتل کرکے ان کی لاشیں سڑکوں پر پھینکا گیا ہے جس کے جواب میں ہم نے یہ قدم اٹھایا ۔

ایف سی جوانوں کی شہادت کی خبر کیساتھ ہی طالبان سے مزاکرات معطل کردئیے گئے جبکہ دوسری جانب طالبا ن کمیٹی کے رکن مولانا یوسف صاحب کا یہ کہنا بھی حق بجانب ہے'' ہم خود طالبان کے اس اقدام کی حمائت نہیں کرتے مگر اس واقعے کی وجہ سے مزاکرات کا تعطل بھی کسی طرح درست نہیں حکومتی کمیٹی کو چاہئے تھا کہ وہ آج کی طے شدہ میٹنگ میں آتے اور ہم مل کر طالبان سے اس واقعے پر بات کرتے اور بات چیت سے بات کو آگے بڑھایا جاسکتا تھا'' بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ اس واقعے کے بعد اب گیند طالبان کی کوٹ میں ہے کہ اب اگر وہ مزاکرات کیلئے مخلص ہیں تو انہیں اپنی شرائط طاقت کے ذریعے منوانے کی سوچ کی بجائے حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کی بجائے غیرمشروط بات چیت کیلئے آمادگی کیساتھ ساتھ کچھ قیدیوں کی رہائی بھی ممکن بنانا ہوگی اسی طرح حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ آپریشن کیلئے ہرگز جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے کیوں کہ یہ آپریشن پاکستان کیلئے ایک بار پھر ایسی نہ ختم ہونے والی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوگا جس کا خمیازہ ہماری آنیوالی نسلیں ایک عرصہ تک بھگتیں گی ۔

میاں صاحب یقیناََ اس حقیقت سے باخبر ہوں گے کہ آپریشن کا فیصلہ پاکستان کے دشمنوں کیلئے ایک بڑی خوشخبری تو بن سکتا ہے مگر دونوں جانب مارے جانے والے پاکستانیوں کی ہلاکتوں کے ہم ہرگزمتحمل نہیں ہوسکتے اس لئے ابھی آپریشن کیلئے کیا گیا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے خوب غوروخوض کرنا ہوگا ورنہ حکومت کے مخالفین کو یہ کہنے کا بھی موقع مل جائے گا کہ طالبان سے مزاکرات کا ڈرامہ صرف اپنی فیس سیونگ اور عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے کیا گیا ہے ورنہ حکومت آپریشن کا فیصلہ تو مزاکرات کے آغاز سے بھی قبل کا کرچکی تھی جس کاثبوت وہ 27جنوری کو میاں نوازشریف کی جانب سے مزاکرات کیلئے کمیٹی اناوٴنس کرنے سے ایک دن قبل کے رانا ثنااللہ کے بیان کو سمجھتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آپریشن کا فیصلہ ہوچکا ہے صرف حکمت عملی پر غور ہورہا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :