مکافات عمل

پیر 6 ستمبر 2021

Sana Naaz

ثناء ناز

ثریا روز اپنا حسرتوں بھرا بیگ اٹھا کر اپنی کئی بار سلائی کی ہوئی بوسیدہ چپل کیساتھ سکول جاتی تھی۔ٹیچرز سے روز اپنے بوسیدہ وردی اور ٹوٹی ہوئی چپل کی زلت سہتے ہوئے کلاس روم میں چلی جاتی تھی۔
ثریا روز اپنی یہ زلت اپنی ماں کو بتانا چاہتی تھی پر ماں کے چہرے سے ٹپکتی بےبسی اسے چپ کروادیتی تھی۔کیونکہ وہ جانتی تھی کیسے اسکی ماں اسے اور اسکی تین بہنوں کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے لوگوں کے گھر جا جاکر دن رات کام کرتی تھی۔


ایک دن ثریا نے اپنی ماں سے کہا کے اماں اگر ابا آپ کو چھوڑ کر نہ جاتا تو وہ سب بہنیں اپنی تعلیم پوری کرسکتی تھیں ان کا گھرانہ کتنا مکمل اور پرسکون ہوتا ثریا کی بات سن کر اسکی ماں نے کہا بیٹا تیرا ابا حسن کا دیوانہ تھا وہ میرے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا پر گھر والوں نے زبردستی ہماری شادی کروادی ۔

(جاری ہے)

شادی کی پہلی رات ہی تیرے ابا نے مجھے بتا دیا تھا ک جب تک اسکی ماں زندہ ہے تب تک ہی میں اسکی زندگی میں ہوں جس دن اسکی ماں مرگئی میرا بھی اس گھر سے دانہ پانی اٹھ جائے گا۔


پتر ہماری شادی کے پانچ سال بعد اسکی ماں مرگئی تو اسنے اپنی ماں کے مرنے کے دوسرے دن ہی مجھے اپنے گھر سے نکال دیا یہ کہہ کر کے میں تجھ جیسی بدصورت عورت کیساتھ اتنے سال نکال لیے میرا احسان مانوں یہ اور اپنی بیٹیوں کو لے کر نکل جاؤ یہاں سے میرا ان سے کوئی تعلق نہیں مجھے بیٹا چاہیے تھا جو پانچ سال میں مجھے تو یہ بھی نہ دے سکی۔میں بہت گڑگڑائی تیرے ابا کے سامنے کی میری بچیوں کو بے آسرا مت کرو پر اسنے مجھے دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔


اور پھر میں نے ساتھ والی پڑوسن سے سنا تھا کے اس نے ایک خوبصورت اور امیر عورت سے شادی کرلی تھی۔
ثریا کو اپنی ماں کی آنکھوں میں بےپناہ درد نظر آیا اور وہ ماں کے گلے لگ کر رو دی پر اس نے اپنے دل میں پکا ارادہ کرلیا تھا کے وہ اپنے ابا سے ایک بار ضرور ملے گی اور ان سے پوچھے گی کہ انہوں نے ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا۔
کچھ دنوں بعد ثریا کو اپنی پڑوسن کی مدد سے اپنے ابا کے گھر کا پتہ لگ گیا وہ اماں سے چھپ کر ان سے ملنے گئی ۔

انکے گھر پہنچ کر اس نے بیل بجائی تو اندر سے ایک کڑک نسوانی آواز آئی کون ہے اور ساتھ ہی دروازہ بھی کھل گیا اندر سے ایک خوبصورت عورت نے چہرہ باہر نکالا اور اپنی غصے دار آواز میں پوچھا کون ہو کس سے ملنا ہے۔
ثریا نے اپنی خشک ہوتی زبان کیساتھ کہا کے مجھے طاہر صاحب سے ملنا ہے میں انکی دور کے تایا کی بیٹی ہوں اس عورت نے چند لمحے گھورنے کے بعد اسے طاہر صاحب کے کمرے میں پہنچا دیا۔


جب وہ انکے کمرے میں پہنچی تو اسے دیکھ کر دھچکا لگا کہ اسکا باپ ویسا بلکل بھی نہ تھا جیسا وہ بچپن سے دیکھتی آرہی تھی انہیں تصویروں میں۔ اسکے سامنے تو بستر پر جو وجود پڑا تھا وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اور زرد نظروں سے ثریا کی طرف دیکھ رہا تھا ۔اس سے پہلے کے ثریا کچھ کہ پاتی وہی پہلے والی عورت اندر آئی اور ثریا سے کہا طاہر صاحب سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں انکا کینسر آخر تک بڑھ چکا ہے یہ کئی سالوں سے ایسا ہی ہے اور اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے اسے اب کسی کی بھی پہچان نہیں رہی ہے۔


اور ساتھ میں وہ عورت طاہر صاحب کو برا بھلا کہتے ہوئے یہ بھی کہہ رہی تھی ثریا سے کے پتہ نہیں وہ کونسا منحوس وقت تھا جب اس نے طاہر صاحب سے شادی کی ۔اس نے اپنے بیوی بچوں کو بے آسرا چھوڑا اب خود بھی ایسے تڑپ تڑپ کے مررہا ہے انکی یاد میں۔اس سے پہلے کے عورت اور بھی کچھ کہتی ثریا اپنے بے جان ہوتے جسم کے ساتھ اپنے پاؤں کو گھسیٹتی ہوئی وہاں سے نکل آئی کیونکہ وہ جان چکی تھی کے اس کا ابا اس دنیا میں ہی اپنی سزا بھگت چکا ہے۔بیشک یہ دنیا مکافات عمل ہے ثریا نے آنسوؤں بھری آنکھوں کیساتھ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے یہ بات تسلیم کی تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :