رات گئی بات گئی

منگل 3 فروری 2015

Sibghat Bukhari

صبغت بخاری

کیا لکھیں کچھ یاد نہیں،کیا سوچیں کچھ سمجھ نہیں آتا، کیا بولیں زباں ساتھ نہیں،کیا کریں بے بسی کا عالم ہے۔ہر روز مرتے ہیں ،مارے جاتے ہیں،دفن ہوتے ہیں لیکن کیا کسی کو رتی برابر بھی فرق پڑتاہے۔ایک سو اکتالیس پشاور میں گرے،ستاون شکارپُر میں لیکن کیا فرق پڑا ،کیا کوئی ذمہ دارٹھرا، کیا کسی نے کہا کہ آج کے بعد ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

سب مداری اپنا اپنا تماشا لگاتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ یہ نہیں کر سکتے میں کر سکتا ہوں کوئی بولتا ہے میرے بغیر کیسے کروگے۔کوئی کہتا ہے اچھا میرے بغیر کرو گے تو میں ہونے نہ دوں گا ۔ کیا خوب کہا تھا غالب نے:
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آ گے
ہوتاہے شب وروز تماشا میرے آگے
لفظ ”تماشا“ ویسے تو فائین آرٹس کے مضامین میں ملتا تھا مگر اب صحافت کا گردانا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

ہر روز چھ سے بارہ کا تماشا لگتا ہے سارا ملک اپنے پسند کے مداریوں سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔علامہ اقبال نے فرمایا تھا ”سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا،شجاعت کا“ لیکن ہم نے آسان کام کیا اور سبق پڑھ لیا ”رات گئی بات گئی “ کا۔ اب جو مرضی ہو جا ئے سو لوگ مرجائیں یا ہزار”رات گئی بات گئی “،اربوں کی کرپشن ہوجائے”رات گئی بات گئی “،انڈیا ہمارے فوجی شہید کر دے ”رات گئی بات گئی “،دہشتگرد کوئی حملہ کر دیں”رات گئی بات گئی “۔


فالج کا علاج تو ایجاد ہ ہوچکا مگر بے حسی کا انجام صرف تباہی ہی دیکھنے میں آیا ہے ۔نہ صرف ہمارے سیاست دان بے حس ہیں بلکہ ہم بطور قوم بے حس ہو چُکے ہیں۔ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گزشتہ تین دہائیوں میں ہم نے کیا کیا کھودیا ہے ، ہمارے قدرتی وسائل کیوں ختم ہوتے جا رہے ہیں، کیوں ہماری روز مرہ کی اشیاء کئی گنہ مہنگی ہو چکی ہیں،ہمارے سکول،گلیاں ،میدان،بازار،دفاتر کیوں محفوظ نہیں ۔

ملک میں جرائم کی شرہ خوفناک حد تک بڑھ چکی لیکن کس کو فکر ہے مرنے والا غریب مارنے والاغریب، ابھی چندروزقبل ایک بھتہ خورنے صرف دوہزار کی خاطر مزدور کو قتل کر دیا ،پندرہ سو کے موبائل کے خاطر ایک وکیل قتل ہوگیا۔جان کی قیمت دوہزار اور مہینے کا راشن دس ہزار ،ہمارا مستقبل کیا ہو گا ۔آج ہمارے ملک میں عورت کی عزت روٹی سے سستی ہو چکی ہے اور اس پر قیامت یہ کہ عزت کے خریدار بہت ہیں روٹی(روزگار)دینے والا کوئی نہیں۔آج ہم مسلمان اللہ ،رسول اللہ ﷺ اور قرآن کی خاطر جان دے بھی سکتے ہیں اور لے بھی مگر اپنی زندگی کو ان کے احکامات کے تابع نہیں کرتے۔درج بالا خوبیوں کی حامل ہم پہلی قوم نہیں ہیں ہم سے پہلے بھی یہ تمام کام ہو چکے مگر افسوف آج وہ اقوام باقی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :