چار”ت“

جمعہ 7 فروری 2020

Sohail Raza Dodhy

سہیل رضا ڈوڈھی

پاکستان وہ ملک ہے جس کو اللہ نے چار موسموں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کا اناج اور معدنیات سے نوازا ہے،قوم بھی ایسی محنتی کہ دنیا مثال دیتی ہیں،ہاں مگر کہیں نہ کہیں اس قوم کی پرورش میں کمی ضرور رہ گئی ہے عموماََکہتے ہیں کہ کچھ خوبیاں کچھ حامیوں کو چھپا لیتی ہیں اور کچھ حامیاں خوبیوں کو دبا دیتی ہیں،پوری دنیا میں دیکھ لیں جہاں اچھے لوگ ہیں وہاں برے بھی ہیں،بلکہ ایک ہی قوم میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں اور برائیاں بھی مگر کیوں کہ ان قوموں کی تربیت کی گئی ہے اس لئے ان کی برائیوں پر اچھاؤاں نے پردہ ڈال دیا ہوا ہے،ان کا میعار زندگی بہتر ہونے کی وجہ چار ''ت'' ہیں،تعلیم، تربیت، تحقیق، ترقی۔


اس کا مطلب ہے کہ ترقی یافتہ ہونے کے لئے تعلیم کے ساتھ تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے اور تربیت گھر سے شروع ہو کر سکول کالج یونیورسٹی سے ہوتی ہوئی معاشرے تک پہنچتی ہے،پاکستانیوں نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا استعمال کم اور ضیا زیادہ کیا ہے،ہم کھانا بھی کھائیں گے تو آدھے سے زیادہ ضائع کر دیتے ہیں،گھروں، گلیوں، بازاروں، دفاتر بلکہ ہر جگہ پانی کہ نل یا تو کھلے رہتے ہیں یا خراب ہونے کی وجہ سے پانی بہتا رہتا ہے، ملک میں بجلی کی کمی بتدریج بڑھتی جا رہی ہے بجلی کے بل ادا کرنے مشکل ہوتے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی گھروں میں بلکہ گھروں سے باہر، بازاروں میں گلیوں میں سڑکوں پر اس طرح بجلی کا بے جا استعمال ہو رہا ہے کہ ترقی یافتہ قومیں بھی دیکھ کر حیران ہوتی ہیں کہ ابھی بجلی نہیں تو یہ حال ہے اور اگر اس ملک میں بجلی ہوتی تو یہ قوم کیا حال کرتی،بجلی کے ساتھ ساتھ اب گزشتہ کئی برسوں سے ملک میں گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے،لیکن جب گیس ہوتی ہے تو ایک ہی گھر میں تین تین، چار چار ہیٹر لگے ہوتے ہیں ہر گھر نے سب سے بڑے سائز کا گیزر لگایا ہوا ہے جو دن رات چل رہا ہوتا ہے،ہم لوگوں نے گیزر رکھا بھی اپنے گھروں کی چھتوں پریاگھر سے باہر کھلی جگہ پڑاہوتا جہاں سے اس کی کارکردگی میں چالیس سے پچاس فیصد کمی آتی ہے۔

(جاری ہے)

ٹھنڈی جگہ پر رکھا گیزر پانی کو گرم تو کر رہا ہوتا ہے مگر نل میں گرم پانی آنے تک گیزر سے کافی پانی نکل چکتا ہے،پوری دنیا میں دیکھ لیں کہ ایک تو انسٹینٹ گیزر استعمال ہوتے ہیں اور وہ بھی پانی کے استعمال ہونے کی جگہ کے قریب ترین یعنی یا تو کچن میں یا باتھ روم میں تا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کارکردگی حاصل کی جا سکے،گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ ملکی صنعت بھی اس توانائی کی کمی کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہے،آئے دن بجلی اور گیس کی بندش کی وجہ سے صنعتیں بند پڑی ہوتی ہیں اور صنعتکار سڑکوں پر نکلے ہوتے ہیں،ہر دوسری صنعت میں بجلی پیدا کرنے کے بڑے سائز کا جنریٹر پٹرول یا گیس پر چل رہے ہیں تو پھر ملک میں ان دو چیزوں کی کمی کیوں نہ ہو،پیٹرول ہی کی بات کر لیں تو دیکھیں سڑکوں پر کس طرح موٹر سائیکل اور گاڑیاں چل رہی ہیں،سائیکل اور پیدل چلنا اس قوم کے لئے محال ہوچکا ہے۔

چند ماہ پہلے مجھے جاپان جانے کا اتفاق ہوا،میرے ذاتی اندازے کہ مطابق ستر فیصد قوم پیدل چل رہی ہے، دس فیصد قوم سائیکلوں پرہے اور چند ایک ہیں جن کہ پاس اپنی گاڑیاں ہیں اور باقی سب ٹرین پر سفر کرتے ہیں،یہ سب کچھ پاکستان میں کس نے کس کو سمجھانا اور سکھانا ہے،سیکھنے والے سیکھنا نہیں چاہتے اور سمجھانے والوں کہ پاس وقت نہیں ہے۔میڈیا جو دن رات سیاسی اکھاڑا بنا رہتا ہے اس کو قوم کی تربیت کیلئے استعمال ہی نہیں کیا جا رہا،پوری دنیامیں تخقیق و ترقی (ریسرچ اینڈ ڈویلوپمنٹ) پر کام ہوتا ہے اور میڈیا قوم کی تربیت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے مگر ہمارے ملک میں ایسا کوئی نظام بظاھر نظر نہیں آتا،پیمرا میڈیا کو ہدایت کرے کہ رات کے مصروف ترین اوقات میں توانائی کے استعمال پر پروگرام نشر کرے یا اشتہار چلائے۔

 
اب یہاں سب سے زیادہ کردار حکومت وقت کا بنتا ہے،میریخیال میں حکومت کو ملک میں فوری طور پر انرجی ایمرجنسی نافذ کر دینی چاہئے،حکومت خود گیس پر بڑے جنریٹر لگا کر بجلی پیدا کرے اور صنعتوں کو دے، الیکٹرک گاڑیوں کو نہ سہی مگر فوری طور پر الیکٹرک موٹر سائیکلوں کو متعارف کروائے،جیسا کہ پاکستان میں 12مہینے ہی سورج کی روشنی رہتی ہے تو کیوں نا پورے ملک میں ہر گھر پر سولر سسٹم انسٹال کروایا جائے جس میں حکومت پچاس فیصد تک مالی معاونت کرے،اس سے جو بھی اضافی بجلی پیدا ہو وہ گھریلو صارف حکومت کو فروحت کرے جو کہ آگے سستے داموں صنعتوں کو فرہم کی جائے،ہر گھر میں انسٹینٹ گیزر اور سرد ممالک کی طرز کے سنٹرل ہیٹنگ سسٹم لگائے جائیں اور اس میں بھی حکومت عوام کی مالی معاونت کرے،دنیا بھر سے بہترین ماہر کمپنیوں کو انرجی ایفیشنسی پر کام کرنے کے لئے بلایا جائے جو کہ ہمیں توانائی کی بچت کے طریقے بتائے بلکہ کوڑا کرکٹ، گوبھر، کوئلے سے گیس اور بجلی پیدا کرنے کے پراجیکٹ بھی لگانے میں مدد فراہم کرے۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ ترقی کہ خواہشمند ممالک کو کسی بھی شعبہ میں مشکل پیش آئے تو وہ دنیا سے بہترین ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں،دوسرے لفظوں میں کہیں تو جب ان کو تکلیف ہوتی ہے وہ سرجن کے پاس جاتے ہیں فوری صحتمند ہو کہ بہتر زندگی گزارتے ہیں اور جب ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو ہم نیم حکیم خطرہ جان کہ پاس چلے جاتے ہیں،نا ہی تکلیف سے جان چھوٹتی ہے اور نہ ہی زندگی بہتر ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :