صرف پاکستان ہی واشنگٹن کا طواف نہیں کرے گا،امریکا کو بھی ہم پر توجہ دینی ہو گی، وزیر خارجہ ،پاک امریکا تعلقات میں خاصی پیش رفت ہوئی، وزارتی سطح پر اسٹرٹیجک مذاکرات ہوئے ہیں، پاک افغانستان تعلقات کا موازنہ بھارت اور افغانستان کے تعلق سے نہ کیا جائے، شاہ محمود قریشی کا سینٹ میں اظہار خیال

جمعرات 1 اپریل 2010 21:58

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔1اپریل ۔2010ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکا پر واضح کردیا ہے کہ صرف پاکستان ہی واشنگٹن کا طواف نہیں کرے گا بلکہ امریکا کو بھی ہم پر توجہ دینی ہو گی،پاک امریکا تعلقات میں خاصی پیش رفت ہوئی اور ہم امریکا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانی دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں امریکا کے ساتھ اعتماد کا فقدان ختم کرنا ہو گا، پہلی مرتبہ امریکا سے وزارتی سطح پر اسٹرٹیجک مذاکرات ہوئے ہیں اور اس بار ماضی کے برعکس ماحول مختلف تھا۔ پاک افغانستان تعلقات کا موازنہ بھارت اور افغانستان کے تعلق سے نہ کیا جائے ۔جمعرات کو سینیٹ کے اجلاس میں امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک ڈائیلاگ پر خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا آغاز 2006 میں ہوا اور یہ چوتھا دور تھا جو ماضی سے منفرد تھا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ماضی میں جو ڈائیلاگ ہوئے ہیں وہ اسٹریٹجیک نہیں تھے ۔ ہماری درخواست پر امریکہ نے اس کو اپ گریڈ کیا اور یہ منسٹرز لیول کے بن گئے۔ ماضی کے مذاکرات گفتن نشستن برخاستن تھے ان ڈائیلاگ میں فالواپ میکنزم نہیں تھا مگر ہم نے بات چیت بھی کی اور اختتام پر فالو اپ میکنزم بھی تشکیل دیا۔ سیکرٹری وزارت خارجہ اور ہالبروک اس کو فالو کریں اور پلان تشکیل دیں گے ۔

ماضی کے ڈائیلاگ میں سیکیورٹی کے اداروں کی شرکت نہیں تھی لیکن اب سیکرٹری اسٹیٹ اور اوبامہ انتظامیہ کے ایڈمنسٹریٹرسمیت رابرٹ گیٹس جنرل جونز چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف مائیک مولن بھی شامل تھے جب کہ ہماری طرف سے چیف آف آرمی سٹاف اور اکنامک ایڈوائزر فنانس شامل تھے اس لئے یہ ماضی سے مختلف تھے۔ ہم نے اس کیلئے ہم ورک کیا تھا اور اپنے تحفظات سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا تاکہ بات چیت کو موثر بنایا جا سکے اور امریکہ کی طرف سے اس کا مثبت رد عمل سامنے آیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری ضروریات اور امریکہ کے حدشات کیا ہیں خطے اور پاکستان کی ضروریات کیا ہیں اس پر سیر حاصل اور دوستانہ ماحول میں بات چیت ہوئی تاکہ سمت درست کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت پرانے ہیں لیکن اس میں اتار چڑھاؤ رہا ہے کبھی قریب آ گئے کبھی دور ہو گئے ۔ ہمارے تعلقات میں بہار نہیں خزاں بھی ہے ۔

اعتماد کی کمی کو دور کرنے کیلئے اقدامات کئے گئے جس پر ہمیں مثبت پیش رفت ملی۔ امریکہ نے ہمارے اس جذبے اور سوچ کو سمجھنے کی کوشش کی انہوں نے کہا کہ ہماری افواج اور معصوم لوگوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جو قربانیاں دی ہیں امریکہ اس کو سمجھنے لگا ہے۔ ہم امریکہ کو باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ پاکستان نے اس جنگ میں بہت نقصان اٹھایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کے مذاکرات میں 4 نکات پر بات کی گئی لیکن ہم جس وسعت سے تعلقات چاہتے تھے اس کیلئے یہ نا کافی ہیں۔ ہم نے 10 پہلوؤں پر بات کی اور ہم نے ان چیزوں کا انتخاب کیا جس سے پاکستانیوں کی زندگی میں تبدیلی کے امکانات پیدا ہوں ۔ بجلی ، پانی ، ایگری کلچر ، سائنس ٹیکنالوجی ، سیکیورٹی سمیت دیگر ایشوز پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ جب تک تعلقات محدود رہتے ہیں تو وہ اسٹریٹجک نہیں ہو سکتے ۔

سعودیہ اور چین کے تعلقات حکومت سے نہیں بلکہ براہ راست عوام سے ہے اس لئے ہم نے امریکہ سے مذاکرات سے پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کیا اور ہم نے طے کیا کہ ہم نے مذاکرات کو ایک پراسس کی شکل دینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے واضح کیا کہ امریکہ کا طواف ہم پر لازمی نہیں آپ خود بھی پاکستان آئیں تاکہ آپ خود حالات کا جائزہ لیں ۔ اس کیلئے ہم نے ایک کلینڈر مرتب کر لیا ہے ۔

اپریل سے جولائی تک انہیں دعوت دی جائے گی کہ وہ متعلق وزارتوں اور ٹیکنو کریٹ سے تبادلہ خیال کریں اور اس کے بعد ایک ایکشن پلان تیار کریں جس کو عملی جامہ پہنانے کے بعد پاکستان کی معاشی ترقی اور سیکیورٹی میں بہتری آئے اور اس حوالے سے ہیلری کلنٹن اسلام آباد آئیں گی تاکہ حکمت عملی کو فائنل کیا جائے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پہلی بار مغربی سرحد پر بھاری فوج تعینات کی گئی کیونکہ ہم پاکستان میں طالبنائزیشن نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں افغانستان کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا۔ پاکستان کے مفاد میں مستحکم پر امن افغانستان ہے ۔ افغانستان اور بھارت کے تعلقات پرانے ہیں ۔ دونوں خود مختار ملک ہیں لیکن بھارت اگر پاکستان کے ساتھ برابری کرنا چاہتا ہے جو وہ کر نہیں سکتا کیونکہ بھارت کا افغانستان کے ساتھ کوئی بارڈر نہیں لگتا اور سویت یونین کے خلاف پاکستانیوں نے جو کردار ادا کیا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اگر افغانستان مستحکم ہو تو اس کے اثرات پاکستان پر مرتب ہوتے ہیں۔

تیس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں قیام پذیر ہیں چھ ہزار افغان طلباء پاکستانی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس لئے بھارت کے تعلقات کا جائزہ ضروری ہے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے افغانستان کی تمام ٹریڈ پاکستان سے ہو رہی ہے انہوں نے کہا کہ پاک امریکہ مذاکرات کے مقاصد اور نتائج کو دیکھنا چاہئے اس کے کچھ اثرات فوری طور پر نظر آنا شروع ہو چکے ہیں کیونکہ بھارت کو اس حوالے سے گہری گھبراہٹ ہونا شروع ہو گئی ہے جس کا ذکر اس کے میڈیا نے کیا ہے اور اس سے زیادہ کہنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے اور جب یہ کاغذ کھلے گے تو پتہ چل جائے گا کہ پاکستانی وزیر خارجہ نے امریکہ کے ساتھ کیا باتیں کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جون تک 2009 کے تمام بقایاجات ادا کر دے گا جبکہ اسی ماہ امریکہ سپورٹ فنڈ بھی جاری ہو جائیں گے انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کیلئے عوامی حمایت حاصل کرنا بہت ضروری ہے اس لئے امریکہ پر واضح کیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے کہے کہ وہ اپنی شرائط میں نرمی پیدا کرے کیونکہ ہم پاکستانی عوام پر اور کتنا بوجھ ڈالیں۔

ہمیں مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا اور اس کی گولی کڑوی ہے جو ملک اس کے شکنجے میں آ جاتا ہے تو وزن عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ہم کب تک بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کریں۔ امریکہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس حوالے سے بات کریں گے انہوں نے کہا کہ امریکہ نے مارکیٹ تک رسائی کی بھی یقین دہانی کرائی ہے ۔ اگر ہماری ٹیکسٹائل کو رسائی مل جاتی ہے تو اس سے 10 لاکھ ملازمتیں ملیں گے اور چھ ملین ڈالر کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا۔