کراچی ، مصروف ترین علاقے صدر میں پولیس اور کے ایم سی کی بھتہ خوری عروج پر ،پولیس کی جانب سے پتھارے داروں سے ڈھائی سے تین لاکھ روپے ہفتہ وصول کرنے کا انکشاف

پیر 29 ستمبر 2014 16:36

کراچی ، مصروف ترین علاقے صدر میں پولیس اور کے ایم سی کی بھتہ خوری عروج ..

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔29ستمبر۔2014ء) کراچی کے مصروف ترین علاقے صدر میں پولیس اور کے ایم سی کی بھتہ خوری عروج پر ،پولیس کی جانب سے پتھارے داروں سے ڈھائی سے تین لاکھ روپے ہفتہ وصول کرنے کا انکشاف ہوا ہے ،کے ایم سی کے ڈپٹی ڈائیریکٹر کامران عباس بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ۔زرائع کے مطابق صدر کے ایس پی سلمان سید کی جانب سے پتھارے داروں سے ایس پی کے بیٹر شبو اور ارشد روزانہ کی بنیاد پر فی پتھارا 100سے 150روپے تک وصول کرتا ہے ،جو ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ روپے ہفتہ بنتا ہے اور بھتہ نا دینے کی صورت میں اس پتھارے دار کو غیر قانونی طور پر اٹھا لیا جاتا ہے اور پھر جوڑ توڑ کے بعد ہی اس کی رہائی عمل میں آتی ہے جبکہ متعدد بار پولیس کیا جانب سے ان پتھارے داروں پر غیر قانونی طور جعلی ایف آئی آر بھی درج کی جاتی ہیں جس میں 13Dاور غیر قانوی اسلحہ رکھنے جیسے کیسز شامل ہیں ۔

(جاری ہے)

زرائع کا کہنا ہے کہ ایس پی سلمان سیدکو ایک سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل ہے جس کے باعث ایس پی سلمان سید قانون کا محافظ کم اور بدمعاش زیادہ ہے ۔زرائع نے بتایا کہ پولیس کے ساتھ ساتھ کے ایم سی بھی روزانہ کی بنیاد پر ان پتھارے داروں سے روزانہ کی بنیاد پر100 روپے بھتہ وصول کر تی ہے جوتقریبا ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ روپے ہفتہ بنتا ہے جب کے کے ایم سی کے ڈپٹی ڈائریکٹر کامران عباس کیلئے کے ایم سی کا انسپکٹر سعید اور ایک پرائیوٹ بیٹر سلیم بھتہ وصول کرتے ہیں روزانہ کی بنیاد پر پیسے وصول کرنے کے باوجود کے ایم سی کی جانب سے جب دل چاہتا ہے وہ پتھاروں سمیت پتھارے کا سارا مال بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں اور پھر مزید جوڑ توڑ کے بعد پتھارے واپس کئے جاتے ہیں لیکن مال کو چھانٹ کر اس میں سے اپنے مطلب کی چیزیں رکھ لی جاتی ہیں جس سے ان پتھارے داروں کا بہت نقصان ہوتا ہے ۔

زرائع کا کہنا ہے کہ پولیس اور کے ایم سی کی جانب سے اس قسم کے ہتکھنڈے اس وقت استعما ل کئے جاتے ہیں جب انھیں اپنے ریٹ بڑھانے ہوں یا پھر عید کا موقع ہو۔یہی نہیں کے ایم سی کے ڈپٹی ڈائر یکٹر کامران عباس پر بھی اسی سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل ہے جس کے باعث ان افسران کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی قانونی کاروائی نہیں کی جاتی ۔پتھارے داروں کا کہنا ہے کہ اگر قانون کے رکھوالے ہی قانون شکنی کریں گے تو معاشرے میں تبدیلی کیسے ممکن ہے ۔

متعلقہ عنوان :