لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کیلئے جدوجہد کرنے پر ملالہ یوسفزئی کیلئے امن کے نوبل انعام کا اعلان،وزیراعظم،صدرودیگرکی مبارکباد

ملالہ یوسفزئی اوربھارتی کیلاش ستیارتھی کونوبل انعام مشترکہ طورپردیاگیا،12 لاکھ ڈالر کی انعامی رقم سے دونوں کو نصف حصہ ملے گا ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ نوبل انعام جیتنے والی دوسری پاکستانی بن گئیں،وزیرداخلہ،ملیحہ لودھی، آصفہ بھٹوزرداری ،آمنہ تاثیر، شرمیلافاروقی ، آصفہ زرداری اورشرمین عبید چنائے کی بھی مبارکباد،دنیا بھر میں ایسی لڑکیاں ہیں جوآگے بڑھ سکتی ہیں ، پاکستان کو ایوارڈ جیتنے پر جشن مناناچاہیے،ٹوئیٹرپرپیغامات

جمعہ 10 اکتوبر 2014 16:12

ااوسلو/سٹاک ہومز(اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین ۔0 1اکتوبر 2014ء) طالبان حملے میں زخمی ہونے والی سوات کی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے امن کانوبل انعام جیت لیا،سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی اوربھارت کی کیلاش ستیارتھی کومشترکہ طورپرنوبل انعام دیاگیاہے،ایوارڈدس دسمبر کو اوسلو میں دیاجائیگا،ملالہ یوسفزئی نوبل انعام جیتنے والی پہلی پاکستانی لڑکی ہیں جبکہ ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ دوسری پاکستانی ہیں جنھیں نوبل انعام سے نوازا گیا ہے،نوبل پرائز کی ویب سائٹ کے مطابق امن کے نوبل انعام کے لئے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، امریکی خفیہ ادارے کے سابق افسر ایڈورڈ اسنوڈن اور امریکی خاتون فوجی سپاہی چیلسیا ماننگ کو بھی نامزد کیا گیا تھا تاہم نوبل کمیٹی کے چیئرمین اور ناورے کے سابق وزیراعظم تھورب جوئرن جاگلینڈ کے اعلان کے بعد یہ ایوارڈ ملالہ یوسف زئی اور کلاش ستیارتھی جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔

(جاری ہے)

ملالہ اور کیلاش ستیارتھی کو یہ ایوارڈ ان کی بچوں اور نوجوانوں کی استحصال کے خلاف جدوجہد اور تمام بچوں کے لیے تعلیم کے حق کے لیے کوششوں پر دیا گیا گیاجبکہ ان کی ساتھی بھارتی خاتون کیلاش ستیارتھی کو چائلڈ لیبر کے خلاف کام کرنے پر اس اعزازسے نوازاگیا،نوبیل کی انعامی رقم 12 لاکھ ڈالر کے قریب ہے۔ ملالہ اور کیلاش کو اس کا نصف حصہ ملے گا۔

ملالہ یوسفزئی نوبل انعام جیتنے والی پہلی پاکستانی لڑکی ہیں جبکہ ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ دوسری پاکستانی ہیں جنھیں نوبل انعام سے نوازا گیا ہے یادرہے کہ گذشتہ سال بھی ملالہ یوسفزئی کونامزدکیاگیاتھا لیکن اْس وقت شام میں کیمیائی مواد تلف کرنیوالے ادارے کو یہ انعام دیاگیاتھا،1903ء سے 2014ء تک 103شخصیات اور 25عالمی تنظیموں کو امن کا نوبل انعام مل چکاہے ، ریڈکراس کو تین مرتبہ اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کو دومرتبہ نوبل انعام دیاجاچکاہے ،ایوارڈجیتنے والی شخصیات میں انورسادات ، یاسر عرفات ، نیلسن منڈیلا، مدرٹریسا، آنگ سانگ سوکی ، کوفی عنان اور میخائل گورباچوف بھی شامل ہیں ۔

سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی کے نوبل انعام جیتنے پروزیرِ اعظم نواز شریف نے انہیں مبارک باد دی ،وزیراعظم سیکرٹریٹ سے جاری ایک بیان کے مطابق سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی کے نوبل انعام جیتنے پروزیرِ اعظم نواز شریف نے انہیں مبارک باد دی،نوازشریف نے کہاکہ ملالہ نے قوم کا سرفخر سے بلند کردیا،وزیرداخلہ چوہدری نثار،سابق صدر آصف علی زرداری،صدرممنون حسین ودیگرسیاسی سماجی کارکنوں نے بھی ملالہ کے انعام جیتنے پر مباردکباددیتے ہوئے کہاکہ ایوارڈ ملنا عظیم مقصد کی فتح ہے،آصف علی زرداری نے کہاکہ ملالہ پاکستان کا فخر ہے اورہر پاکستانی کو جیت پر خوشی ہے ، وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ ملالہ شاید دنیا کی پہلا شخصیت ہے جسے اتنی کم عمری میں ایوارڈملا، سوات اورپاکستان کے عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہیں ، امیدکرتے ہیں کہ امن ایوارڈ سے پاکستان کا امیج بہترہوگا،آصفہ بھٹوزرداری ،آمنہ تاثیر، شرمیلافاروقی ، آصفہ زرداری اورشرمین عبید چنائے نے کہاکہ دنیا بھر میں ایسی لڑکیاں ہیں جوآگے بڑھ سکتی ہیں ، پاکستان کو ایوارڈ جیتنے پر جشن مناناچاہیے،بی بی سی اردو سروس میں گل مکئی کے نام سے سوات سے ڈائریاں لکھ کر عالمی شہرت حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی کو نواکتوبر 2012 میں طالبان نے حملے کا نشانہ بنایا تھاحملے کے وقت وہ مینگورہ میں ایک سکول وین سکول سے گھر جار تھیں۔

اس حملے میں ملالہ سمیت دو اور طالبات بھی زخمی ہوئی تھیں۔ابتدائی علاج کے بعد انھیں انگلینڈ منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ صحت یاب ہونے کے بعد اب زیرِ تعلیم ہیں۔بعدازاں حکومتِ پاکستان نے انھیں سوات میں طالبان کے عروج کے دور میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر نقد انعام اور امن یوارڈ بھی دیا تھا انھیں 2011 میں انٹرنیشنل چلڈرن پیس پرائز کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔

ملالہ یوسف زئی کا تعلق سوات کے صدر مقام مینگورہ سے ہی ہے سوات میں 2009 میں فوجی آپریشن سے پہلے حالات انتہائی کشیدہ تھے اور شدت پسند مذہبی رہنما مولانا فضل اللہ کے حامی جنگجو وادی کے بیشتر علاقوں پر قابض تھے جبکہ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی اس زمانے میں طالبان کے خوف سے اس صورتِ حال پر میڈیا میں بھی کوئی بات نہیں کرسکتا تھاان حالات میں ملالہ یوسف زئی نے کمسن ہوتے ہوئے بھی انتہائی جرت کا مظاہرہ کیا اور مینگورہ سے گل مکئی کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کیلیے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کی اس ڈائری میں وہ سوات میں پیش آنے والے واقعات بیان کیا کرتی تھیں۔

اس ڈائری کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کی تحریریں مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی باقاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔ملالہ پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں انہوں نے کھل کر تعلیم پر پابندیوں کی بھر پور مخالفت کی تھی۔