حکومت کے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل نہ کرنے کا تاثر غلط ہے

ان کیمرہ اجلاس میں تفصیل دینے کیلئے تیار ہوں،قومی ایکشن پلان کے 9 نکات صوبائی حکومتوں سے متعلق ہیں، دہشتگرد ی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائینگے ، اس ناسور کا ملک سے جلد اور مکمل خاتمہ کر کے دم لیں گے،مردان اور کوئٹہ دھماکوں کے حوالے سے خفیہ ایجنسیوں کی معلومات میں سامنے آچکاہے کہ کونسی جماعتیں اور گروپ حملوں میں ملوث ہیں، وارسک روڈ واقعے میں مارے جانے والے چاروں دہشتگردوں کے غیر ملکی تھے ، کوئٹہ واقعے میں گرفتار 3دہشتگردوں سے تحقیقات اور سہولت کاروں کے حوالے سے تفتیش جاری ہے ، مثبت پیشرفت پر آگاہ کیاجائیگا ، ایجنسیاں اپنا کام احسن طریقے سے کر رہی ہیں ، 20ہزار کے قریب انٹیلی جنس آپریشن ہو چکے ہیں اور ہزاروں کے حساب سے دہشت گرد پکڑے اور مارے گئے ہیں ،بہتری سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے آئی ہے ، فوج کے ساتھ ساتھ پولیس کا کردار بھی قابل تعریف ہے، پولیس بغیر تربیت او آلات کے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، سابقہ ادوار میں ایک بھی جعلی شناختی کارڈ بلاک نہیں کیا گیا، جعلی شناختی کارڈ رکھنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائیگا وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا سینیٹ میں سانحہ کوئٹہ اور مردان کے حوالے سے جاری بحث سمیٹتے ہوئے خطاب

بدھ 7 ستمبر 2016 22:34

حکومت کے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل نہ کرنے کا تاثر غلط ہے

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔7 ستمبر ۔2016ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ صرف فوج ہی نیشنل ایکشن پلان پر عمل کر رہی ہے اور حکومت نہیں کر رہی ،قومی ایکشن پلان کے 9 نکات صوبائی حکومتوں سے متعلق ہیں، دہشتگرد ی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائینگے اور اس ناسور کا ملک سے جلد اور مکمل طور پر خاتمہ کر کے دم لیں گے،مردان اور کوئٹہ دھماکوں کے حوالے سے خفیہ ایجنسیوں کی معلومات میں سامنے آچکاہے کہ کونسی جماعتیں اور گروپ حملوں میں ملوث ہیں، اب تک کی تحقیقات کے مطابق وارسک روڈ واقعے میں مارے جانے والے چاروں دہشتگرد غیر ملکی تھے ، کوئٹہ واقعے میں ملوث ہونے کے شبے میں 3دہشتگرد گردفتار ہوچکے ہیں ، ان سے تحقیقات جاری ہے ، ان حملوں میں ملوث سہولت کاروں کے حوالے سے تفتیش جاری ہے ، مثبت پیشرفت پر آگاہ کیاجائیگا ،بنوں جیل، کراچی ایئرپورٹ اور باچا خان یونیورسٹی اور دیگر جگہوں پر حملوں کی اطلاعات ایجنسیوں نے پہلے ہی کر دی تھی ، ایجنسیاں اپنا کام احسن طریقے سے کر رہی ہیں، ان کیمرہ اجلاس میں تفصیل دینے کے لئے تیار ہوں ، 20ہزار کے قریب انٹیلی جنس آپریشن ہو چکے ہیں اور ہزاروں کے حساب سے دہشت گرد پکڑے اور مارے گئے ہیں ،بہتری سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے آئی ہے سانحہ پشاور ، بنوں جیل اور دیگر واقعات کی پیشگی اطلاع دی گئی تھی، ، فوج کے ساتھ ساتھ پولیس کا کردار بھی قابل تعریف ہے، پولیس بغیر تربیت او آلات کے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، سابقہ ادوار میں ایک بھی جعلی شناختی کارڈ بلاک نہیں کیا گیا، جعلی شناختی کارڈ رکھنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا،تنقید ضرور کریں مگر اچھی کارکردگی پر کریڈٹ بھی ضروری ہے،گزشتہ چندسالوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو یہاں سینیٹ میں سانحہ کوئٹہ اور مردان کے حوالے سے جاری بحث کو سمیٹتے ہوئے خطاب کررہے تھے وفاقی وزیرداخلہ نے اس دوران کہا کہ کوئٹہ اور مردان میں ہونے والے واقعات بڑے افسوس ناک تھے ، بعض ایسی باتیں بھی کی گئی جس کا زیر بحث مسئلے سے کوئی تعلق نہیں تھا، بعض باتیں جن کا تاثر جس طرح دیا جاتا ہے حقیقت مختلف ہوتی ہے، شہداء کے لواحقین اور ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کے بیٹے کی شہادت پراظہار تعزیت کرتا ہوں، ہر انسانی جان قیمتی ہے ، دکھ ہوتا جب والدین اولاد کے جنازے اٹھاتے ہیں ، ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے صبر اور استحکام کے ساتھ مشکل ترین آزمائش کا مقابلہ کیا ان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے ، اﷲ تمام لواحقین کو صبر و جمیل عطا کرے ، افسوس اور مذمت کے علاوہ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے ، سب سے بڑی ذمہ داری حکومت ، پارلیمنٹ ، اداروں اور عوام پر ہوتی ہے جوجنگ لڑ رہے ہیں اس میں دشمن سامنے نہیں ہے ، مختلف جنگ ہے دشمن ہمارے اندر ہے ، زبان اور رنگ ہماری طرح ہے ، سارے ماحول کا فائدہ دشمنان اٹھاتے ہیں ، کچھ دوست نما دشمن ہیں ، کچھ کھلے دشمن ہیں ، ہر واقعہ پر میں پہنچتا ہوں ، ایوان کا موقف سیکیورٹی اجلاس میں بیان کروں گا ، کوشش کی جاتی ہے دہشت گردوں کا کوئی سراغ مل سکے ، واقعات کے بعد تحقیقات کی جاتی ہے ، بلوچستان میں جب بھی واقعہ ہوتا ہے میں پہنچتا ہوں ، سیاسی موقف کو بالا تر ہو کر سکیورٹی کے حوالے سے قومی موقف پیش کرنا چاہیے ، قومی موقف کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو یہ سامنے آتا ہے بہتری آئی ہے ، گزشتہ حکومتوں کے اعداد و شمار 2006 سے اب تک نکالیں تو بہتری آئی ہے ۔

دنیا کہتی ہے بہتری جون 2013 میں اوسط 5، 6 دھماکے ہوتے تھے سالانہ 2000 دھماکے ہوتے تھے ، چرچوں ، عدالتوں ، مزاروں پر حملے ہوئے ، میریٹ ہوٹل میں سفیر سمیت کئی لوگ مارے گئے ، کوئی ایکشن نہیں ہوتا تھا ، جون 2013 کے بعد ایکشن ہوا۔سب سے پہلے طالبان مذاکرات کا فیصلہ ہوا۔ پیپلز پارٹی ، اے این پی اور دیگر جماعتوں کے تحفظات تھے جوجائز تھے ۔ کچھ جگہوں پر نشانے مار مار کر وہ معصوم لوگوں کو شہید کر رہے ہیں ۔

اپریل 2014میں اجلاس ہونا شروع ہوا کے مذاکرات کامیاب نہیں ہو رہے آپریشن کیا جائے ۔ کراچی ایئر بیس پر حملہ ہوا تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب آپریشن شروع کیا گیا ۔ تمام پارٹیوں نے مل کر 5دن میں نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا جو سانحہ پشاور اے پی ایس کے بعد بتایا گیا۔کہا جاتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر سول اداروں نے کام نہیں کیا ۔ ضرب عضب نیشنل ایکشن پلان سے سات ماہ پہلے شروع کیا گیا ۔

20میں سے 9پوائنٹس صوبوں سے متعلق ہیں ۔ سات مختلف وزارتوں سے متعلق ہیں ۔ تین وزارت داخلہ کے تھے اور ایک فاٹا ریفارمز کے حوالے سے تھا ۔ لیکن وزارت داخلہ کو تنقید کر کے پوائنٹ سکورنگ کی جاتی ہے ۔ خیبرپختونخوا اورسندھ حکومت سیاسی طور پر ہماری مخالف ہے لیکن غلطیوں پر کبھی تنقید نہیں کی۔ کیونکہ ملکر جنگ لڑنی ہے ۔ دہشت گردی کے واقعات 2000سالانہ ہوتے تھے اب کم ہو کر 200ہوگئے ہیں ۔

لیکن یہ واقعات بھی بہت زیادہ ہیں ایک بھی دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہونا چاہیے ۔ دہشت گردی کے واقعات میں اموات 39فیصد 2015میں کمی آئی۔ 2016میں 54فیصد کمی آئی ہے ۔ واضح بہتری آئی ہے ۔ اس کے لئے سیکیورٹی فورسز کی ہمت بڑھائی ہے جنہوں نے جانوں کی قربانیاں دیکر بہتری لائی۔ جون2013سے قبل دھماکے ہونا خبر نہیں تھی ۔ دو تین دھماکے روزانہ ہوتے تھے ۔

دھماکے نہ ہونا خبر ہوتی تھی۔ جنگ ابھی جاری ہے ۔ جنگوں میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ روزانہ لوگ 90،90لاشیں اٹھاتے تھے۔ ضرب عضب میں 500فوجی شہید ہوئے ۔ 15سال میں 60000سے زائد سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے قربانی دیں ۔ پولیس ٹرینڈ اور مسلح نہیں ہے ۔ اپنے جذبے کی بنیاد پر جان ہتھیلی پر رکھ کر خدمات انجام دیتے ہیں ۔ ان کا بہت بڑا کردار ہے ۔ اینٹلی جنس ایجنسیوں پر تنقید ہوتی ہے ۔

محمود خان اچکزئی کا میاں نوازشریف کا تعارف میرے ذریعے ہوا تھا۔ 2001میں میں نے یہ بیان دیا تھا کہ سیاسی طور پر خان عبدالولی خان اور محمود خان اچکزئی کی پسند ہیں ۔ کیونکہ دونوں اصول پسند ہیں ۔ وبے کی یہ اب حکومت میں ان کو وہاں صوبے کی اسمبلی میں جواب طلبی کرنی چاہیے ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کے ایجنسی کے حوالے سے ایک جملے کا جواب یا۔

کہ ایجنسیاں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں ۔ بہت سارے واقعات کی ایجنسیوں نے پہلے ہی اطلاع دی ۔بنوں جیل، کراچی ایئرپورٹ اور باچا خان یونیورسٹی اور دیگر جگہوں پر حملوں کی اطلاعات ایجنسیوں نے پہلے ہی کر دی تھی ۔ ایجنسیاں کا کر رہی ہیں ۔ ان کیمرہ اجلاس میں تفصیل دینے کے لئے تیار ہوں ۔ 20ہزار کے قریب انٹیلی جنس آپریشن ہو چکے ہیں اور ہزاروں کے حساب سے دہشت گرد پکڑے اور مارے گئے ہیں ۔

بہتری سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے آئی ہے ۔ دہشت گردی کا ناسور ختم کر کے دم لیں گے ۔چوہدری نثار نے کہا کہ آج کوئی بھی ملک بغیر دستاویزات کے ملک میں داخل نہیں ہوسکتے۔ شرمیلا ٹیگور ، امریکہ اور دیگر ملکوں سے لوگ بغیر دستاویزات کے آئے جواگلی فلائیٹ سے واپس بھیج دیئے جاتے ہیں ۔ 4کروڑ سے زیادہ جرمانے غیر ملکی ایئر لائنوں کو اس حوالے سے جرمانے کر چکے ہیں ۔

ایئر لائنزبغیرستاویزات کے کسی مسافر کو لانے سے پہلے سو دفع سوچتی ہیں ۔جرمنی سے معاہدہ ہوا۔ یورپی یونین ہمارے اقدامات کی تعریف کر رہی ہے ۔ ماضی میں جعلی شناختی کارڈ جاری کئے گئے ۔ ہمارے پاسپورٹ سے انسانی کلنگ کی گئی ۔2000سے زائد پاسپورٹ کینسل کئے ان میں بڑے بڑے لوگ شامل تھے ۔ بغیر اہلیت کے کسی کو ایک بھی پاسپورٹ ڈویلومیٹک یا دوسرا نہیں لیا۔

رپورٹوں کی طرح ہر گزشتہ حکومتوں میں بانٹے گئے ۔ جنرل مشرف کے دور میں ایک شناختی کارڈ کی پکڑ نہیں کئے گئے ۔ پہلے سال 60000،90000اور اس سال ڈیڑھ لاکھ شناختی کارڈ بلاک کئے جا چکے ہیں ۔ لوگ شکایات کر رہے ہیں ۔ جعلی شناختی کارڈ کی مہم کی کسی قبیلہ کے خلاف نہیں ہے ایسا کرنا گنا عظیم ہو گا۔ اس پر کمیٹی بنارہا ہوں۔ جعلی پاکستان کے پاسپورٹ کینسل کئے ہیں اس سے پہلے کس حکومت نے یہ اقدامات اٹھائے ۔

جعلی شناختی کارڈ رکھنے والے سیکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں ۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے راہنمائی لوں گا ۔ایوانوں کے ذریعے عزت کمائی ہے نہ چھپنے والا ہوں نہ ہی ایوان کو نظر انداز کروں گا ۔ ایوان جب بھی بلائے گا سر کے بل حاضر ہوں گا۔ معزز سینیٹر جب بھی بلائیں گے حاضر ہوں گا۔ دلائل کے ساتھ جواب دوں گا ۔ بلا جواز تضحیک کا تلخ جواب دوں گا۔اس وقت مردان اور کوئٹہ کے حملے میں انٹیلی جنس کی معلومات سے یہ سامنے آچکا ہے کہ کون سی جماعتیں اور گروپ ملوث ہیں ۔

واضح تحقیق سے سامنے آیا ہے کے اندر آکر جس نے اڑایا وہ خودکش بمبار تھا۔ وارسک کے قریب چار دہشت گرد یہاں سے آئے ان کے کوائف سامنے آچکے ہیں ۔ کوائف بائیو میٹرک کرائے گئے تو کوئی ریکارڈ میچ نہیں ہوتے ۔ چاروں غیر ملکی تھے ۔ کہاں سے آئے یہ سب واضح ہو چکا ہے ۔ تفتیش جاری ہے ۔ کوئٹہ کے حوالے سے تین لوگ گرفتار ہوئے ہیں ان سے تفتیش جاری ہے ۔

سہولت کاروں کا پتہ لگانے کے لئے تفتیش جاری ہے ۔ تفتیش سیکیورٹی ایجنسیوں اور حکومتوں کے لئے چیلنج ہے ۔ مجرموں تک پہنچیں گے جب بھی مثبت پیش رفت سامنے آئی تو ایوان کو آگاہ کروں گا۔ جو میری ذات کے حوالے سے بات کرے گا تو اپنا گریباں میں بھی جانکے، سندھ اور خیبر پختوانخواہ کی حکومتوں سے اچھا ورکنگ رلیشنچل رہا ہے، صوبائی معاملات صوبوں مین اٹھائیں، حکومت میں آکر ذمہ داری سے بات کرنی پڑتی ہے، بعض اوقات کروڑوں باتیں سنی پڑتی ہیں،شکارپور واقعہ پر انٹیلی جنس ایجنٹوں کو کہا کہ 1 ماہ میں ذمہ داروں کو پکڑیں، انہوں نے کہا 10 دن میں پکڑ لیے، مبارکباد کے لئے فون کیا تو آگے سندھی آفیسر نے جواب دیا کہ کریڈیٹ آپ کی حکومت کو جاتا ہے کہ آپ نے ہمیں ذمہ داری دی ہے، پروٹوکولمیں نہیں لگایا، میاں شہباز شریف شکوہکرتے ہیں کہ آپ کی انٹیلی جنس شیئرنگ خیبر پختونخواہ کے ساتھ زیادہ ہے، دشمن سکولوں پر حملے کرتے ہیں لیکن ہم سکول، بازار کھلے رکھنے ہیں اور مقابلہ کریں گے، یہ پیغام سب کی طرف سے جاتا ہے کہ ان حملوں سے ہم خوف زدہ میں ہوں گے،دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں سب پرعزم ہیں اور ایک ہیں ، مزاحمت کا اعلان کری لڑنے والی جنگ میں کامیابی حاصل کرلی، اب نفسیاتی جنگ ہورہی ہے، ہمارے عزم کو پستکرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آپریشن میں سب سے زیادہ تعاون ان لوگوں نے کیا جو سیاسی طور پر ہمارے ساتھ نہیں ہیں، جب اختیارات کی بات ہوتی ہے تو بات کرتے ہیں لیکن ذمہ داری کے وقت صرف وفاق پر ڈالی جاتی ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں اور افواج کی ہمت بڑھانی چاہیے، چند سالوں بڑی کامیابی حاصل کی ہے، لڑائی کو منتطقی انجام تک پہنچائیں اور ناسور کا خاتمہ کریں گے۔