بعض سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے لیے دہشت گردعناصر کی حمایت کرتی ہیں، ہمارا ملک جس دہشت گردی کا شکار ہے، اس میں بیرونی ہاتھ اور اندرونی حمایت شامل ہوتی ہے، کراچی اور بلوچستان بدامنی کیس میں اس بات کا ذکر کیا گیاہے۔ ضروری ہے کہ ادارے اپنی آئینی حدود و قیود میں رہ کر کام کریں، دائرہ کار میں رہ کر ہی گڈ گورننس ممکن ہوگی، آئین میں تمام اداروں کے دائرہ کارکی وضاحت کی گئی ہے، عدالت اپنے آئینی ذمہ داریوں پر آنکھ بند نہیں رکھ سکتی۔ قائد اعظم کا مقصد سیکولر پاکستان بنانا نہیں تھا، پاکستان بنانے کا مقصد تھا کہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابر حقوق ملیں-چیف جسٹس آف پاکستان کا سپریم کورٹ میں تقریب سے خطاب

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 19 ستمبر 2016 13:29

بعض سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد   کے لیے دہشت گردعناصر کی حمایت کرتی ہیں، ..

اسلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 ستمبر۔2016ء) چیف جسٹس پاکستان جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ ادارے اپنی آئینی حدود و قیود میں رہ کر کام کریں، دائرہ کار میں رہ کر ہی گڈ گورننس ممکن ہوگی، آئین میں تمام اداروں کے دائرہ کارکی وضاحت کی گئی ہے، عدالت اپنے آئینی ذمہ داریوں پر آنکھ بند نہیں رکھ سکتی۔

سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اداروں میں ٹکراﺅ ہے، اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے عدلیہ اور مقننہ کے درمیان مکالمہ کرایا گیا۔ بدلتی صورتحال کے پیش نظر تمام ریاستی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ وکلابرادری اور عدلیہ بھی دہشت گردی سے متاثر ہو رہے ہیں، انصاف کی فراہمی کے اداروں کو خوفزدہ کرنے کے لئے اسے تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے بعض سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردعناصر کی حمایت کرتی ہیں، ہمارا ملک جس دہشت گردی کا شکار ہے، اس میں بیرونی ہاتھ اور اندرونی حمایت شامل ہوتی ہے، کراچی اور بلوچستان بدامنی کیس میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ منصفانہ ریاست کے لیے ہر شخص کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ہوگا، کرپشن کے خاتمے سے عدالت پر بوجھ کم ہوگا اور لوگوں کو غیر ضروری عدالتی چارہ جوئی سے نجات ملے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قائد اعظم کا مقصد سیکولر پاکستان بنانا نہیں تھا، پاکستان بنانے کا مقصد تھا کہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابر حقوق ملیں، آئین پاکستان مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے، تمام ادارے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں تو کرپشن اور بدامنی کا خاتمہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ عدالت اپنے آئینی ذمہ داریوں پر آنکھ بند نہیں رکھ سکتیں، جہاں بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو، ضروری ہے کہ اس کا تدارک کیا جائے، اسی بات کو مدنظر رکھ کرعدالت نے گذشہ سال چند معاملات پر ازخود نوٹس بھی لیے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس نے کہا کہ بعض سیاسی جماعتیں بھی اپنے مفادات کی خاطر دہشت گرد عناصر کی حمایت کرتی ہیں۔ وکلا برادری اور عدلیہ کو بھی دہشت گردی کا سامنا ہے ، دہشتگردی میں بیرونی ہاتھ ملوث اور اندرونی حمایت شامل ہوتی ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ تمام ادارے اپنی آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کریں۔ کرپشن کے خاتمے پر عدالت پر بوجھ کم ہو گا اور لوگوں کو بھی غیر ضروری عدالتی چارہ جوئی سے نجات ملے گی۔

انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ قائد اعظم کا مقصد سیکولر پاکستان بنانا نہیں تھا۔ پاکستان بنانے کا مقصد تھا کہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابر حقوق ملیں۔ آئین پاکستان مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کراچی بدامنی کیس میں عدالت مختلف تخریبی عناصر کے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے روابط کے تدارک کا کہہ چکی ہے ، فراہمی انصاف کے اداروں کو خوفزدہ کرنے کے لئے اسے تخریبی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی زمہ داری ہے کہ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ ادارے اپنی کارکردگی بہتر بنائیں تو کرپشن اور بدامنی کا خاتمہ ہو گا۔ معاشرتی اور اقصادی صورت حال کے پیش نظر تمام ادارے مل جل کر چلیں۔انہوں نے کہا کہ اداروں کے درمیان تصادم کے تاثر کو زائل کرنے کے لئے عدلیہ اور مقننہ نے بین العدالتی مکالمے کی ضرورت محسوس کی ہے ، عدالت اپنی آئینی ذمہ داریوں پر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی جہاں بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو ، ضروری ہے کہ اس کا تدارک کیا جائے۔

اسی بات کو مد نظر رکھ کر عدالت نے گزشہ سال چند معاملات پر ازخود نوٹس بھی دیے۔تقریب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتراوصاف، سپریم کورٹ بار کے صدر علی ظفر اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل بیرسٹر فروغ نسیم نے بھی خطاب کیا۔