
این ٹی ایس کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ
وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی محکمانہ آٹ کمیٹی میں لیا جائے، قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ہدایت یونیورسٹیوں کو اپنی سطح پر ٹیسٹ کا نظام وضع کرناچاہیے، سید خورشید شاہ کاکمیٹی کے اجلاس میں اظہار خیال
منگل 17 اپریل 2018 14:47

(جاری ہے)
اجلاس میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت آبی وسائل کے آڈٹ اعتراضات کاجائزہ لیا گیا۔
اسلامی یونیورسٹی کے ایک آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے بتایاکہ ہمارے ملازمین اپنی طبی ضروریات کے اخراجات ادا نہیں کرسکتے اور ہسپتال بھی ہمارے ملازمین کو طبی سہولیات فراہم کرنے سے گریزاں ہیں ۔ پی اے سی نے کہاکہ بورڈ سے منظوری لی جائے۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ تمام یونیورسٹیوں کے تنخواہوں کے سکیل کی منظوری وزارت خزانہ دے سکتی ہے۔ سید خورشیداحمد شاہ نے کہاکہ سرکاری ہسپتال کوئی معاوضہ نہیں لیتے۔ پی اے سی کے استفسار پر آڈٹ حکام نے بتایاکہ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی خود مختار ادارہ مالیاتی اثرات کے حوالے سے از خود کوئی بھی فیصلہ کرنے کا مجازنہیں ۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ میڈیکل الائونس کے حوالے سے یونیورسٹیوں کو قاعدے اور قانون کا احترام کرناچاہیے اور وزارت خزانہ سے اس کی منظوری حاصل کی جائے۔ پی اے سی نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو بھی ہدایت کی کہ ادارے ملازمین کو میڈیکل الائونس کی سہولت کے حوالے سے وزارت خزانہ سے رجوع کرنا چاہیے ۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہاکہ آڈٹ اور فنانس کو مل کر یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایاکہ کامسیٹس یونیورسٹی نے پاک چین بزنس فورم پر غیر قانونی طور پر 8 کروڑ 54لاکھ روپے خرچ کئے۔ کامسیٹس یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر راحیل قمر نے کہا کہ اس کی رپورٹ مرتب ہو رہی ہے۔ پی اے سی نے کوشش کرکے اس معاملے کو ملتوی کرایا۔ پی اے سی نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو وزارت خزانہ کے ساتھ مل کر معاملات طے کرنے کے بعد 24اپریل کو دوبارہ طلب کرلیا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ڈاکٹر شاہد صدیق کا کہنا تھاکہ ہمارے ادارے کے ملازمین کو بھی دیگر سرکاری ملازمین کی طرح سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے پی اے سی ہماری مدد کرے۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایاکہ کامسیٹس یونیورسٹی نے 65 معاونین بھرتی کئے جن کے سروس سٹرکچر کے حوالے سے یونیورسٹی نے آڈٹ کو تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ یونیورسٹی کے پاس 2015-16ء میں 190 ملازمین تھے۔ ڈاکٹر راحیل قمرنے کہاکہ پی ایچ ڈی ایڈوائزر تعلیمی ضروریات کو مد نظر رکھ کر رکھے گئے ۔ آڈٹ اعتراضات کے بعد ہم نے اس تعداد کو کم کردیا۔ ان کے کیسز سلیکشن بورڈ کو ارسال کررکھے ہیں۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ 65 معاونین کی ماہانہ تنخواہ 30 ہزار سے 2لاکھ روپے تک ہے۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ کنسلٹنٹ کی تنخواہ 30 ہزار جبکہ پروفیسر کی تنخواہ زیادہ ہوتی ہے۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایاکہ سالانہ 8 کروڑ سے زادء رقم اس مد میں خرچ ہوتی ہے ۔ اعظم سواتی نے کہاکہ ہمیں بتایا جائے کہ یہ ایڈوائزر کس کس کی سفارش پر رکھے گئے ہین۔ فیسوں کے حوالے سے پی اے سی کے ایک سوال کے جواب میں کامسیٹس کے ریکٹر ڈاکٹر راحیل قمر نے کہاکہ صرف قائد اعظم یونیورسٹی کی فیس ہم سے کم ہے۔ گزشتہ سال ہم نے 28 فیصد سکالر شپ دیئے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ کامسیٹس یونیورسٹی میں بھرتی کئے گئے کنسلٹنٹس اور اساتذہ کا ایک سروس سٹرکچر بناکرپی اے سی کو پیش کیا جائے۔ سید خورشید احمد شاہ نے ایک اور آڈٹ اعتراض کے جائزے کے دوران ریمارکس میں کہاکہ میڈیکل کی سہولت سب کو بلاامتیاز مفت ملنی چاہیے۔ سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کہاکہ حکومت کی طرف سے انتہائی کم فنڈنگ ہوتی ہے۔ این ٹی ایس کے بورڈ میں کامسیٹس کے لوگ بھی شامل ہیں ۔ ایچ ای سی کے کہنے پر این ٹی ایس کا آڈٹ کرایا گیا۔این ٹی ایس سکینڈل کے حوالے سے پی اے سی کے استفسار پر کامسیٹس یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر راحیل قمر نے کہاکہ این ٹی ایس پیپر آئوٹ ہونے کے حوالے سے سندھ میں اطلاعات پر تحقیقات کرائی گئی جو غلط ثابت ہوئیں۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ این ٹی ایس کاپراجیکٹ بنیادی طورپر کامسیٹس کاہے اور کامسیٹس وزارت سائنس وٹیکنالوجی کا ماتحت ادارہ ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہاکہ اگر یہ لوگ اپنے اداروں کو ہی نہیں سنبھال سکتے توانہوں نے کیا تعلیم دینی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر ہارون کو جتنی ادائیگیاں کی گئی ان کی ریکوری کافیصلہ ہوا ہے ۔ ڈاکٹرہارون کی ڈگری جعلی ہونے کا پتہ چلنے پر ان کو پروریکٹر کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ یہ کیس ایف آئی اے کو بھوایاگیا۔ ڈاکٹر ہارون امریکا میں ہیں۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ ٹیسٹنگ سروس کا کوئی ریگولیٹر نہیں ہے۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہاکہ ٹیسٹنگ سروس اب کاروبار بن چکا ہے۔ اس طرح کے کاروباری اداروں پر پابندی لگائی جائے۔ ٹیسٹنگ کا نظام معروف یونیورسٹیوں کے ماتحت ہونا چاہیے۔ آڈٹ حکام نے کہاکہ ٹیسٹنگ سروس کا ایک ریگولیٹر ہونا چاہیے۔ شاہدہ اختر علی نے کہاکہ این ٹی ایس کے نظام پر سوالیہ نشان موجود ہے۔ غریب عوام کاپیسہ لیا جارہا ہے۔ اس کا ریگولیٹر مقرر ہونا چاہیے۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہاکہ این ٹی ایس کے نظام کو ختم کرکے یونیورسٹیوں کو اپنی سطح پر ٹیسٹ کا نظام وضع کرناچاہیے۔پی اے سی نے ہدایت کی کہ قانون کے تحت کامسیٹس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا ماتحت ادارہ ہے۔ اس لئے آڈٹ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر این ٹی ایس کے حوالے سے ڈی ای سی کرے۔متعلقہ عنوان :
مزید اہم خبریں
-
مچل اسٹارک ’ماڈرن۔ ڈے گریٹ‘ ہیں، وسیم اکرم
-
وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کا ڈی پی او آفس سیالکوٹ کا دورہ، سیف سٹی پراجیکٹ اور جدید پولیسنگ اقدامات کی تعریف
-
اللہ مجھ سے پوچھے گا دنیا میں کیا کام کیا تو کہوں گا میرٹ پر کام کیا، وزیراعظم
-
ہرچیز کا الزام میئراورڈپٹی میئر پر لگادیا جاتا ہے، مرتضیٰ وہاب
-
نائب وزیراعظم ووزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار ملائیشیا کا دو روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے
-
پاکستان اوربحرین کا دہشتگردی اور اسمگلنگ کیخلاف تعاون کو مزید فروغ دینے پر زور
-
اویس لغاری کا پاورسیکٹرمیں انتہائی ضروری اصلاحات کیلئے وزارت کی کاوشوں کو تسلیم کرنے پر وزیراعظم سے اظہارتشکر
-
وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کا ڈی ایس پی رحمین خان کی شہادت پر انہیں خراج عقیدت
-
پاکستان اور ویتنام کے تجارتی رابطوں کو فروغ، باہمی تجارت اور اپنی برآمدات میں اضافہ کریں گے، جام کمال
-
عمران خان کے بیٹوں کو دھمکیاں دینے والے خود ایکسپوز ہورہے ہیں، علی امین گنڈاپور
-
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا ڈی ایس پی رحمین خان کی شہادت پر انہیں خراج عقیدت
-
پنجاب اسمبلی معطل اپوزیشن ارکان کیخلاف ریفرنس معاملہ، حکومت اوراپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.