قومی اسمبلی کیبنٹ کمیٹی میں چیئرمین سی ڈی اے کی تعیناتی کے حوالے سے بل متفقہ طور پر منظور

غیر متعلقہ اور نا تجربہ کار افراد کو چیئرمین سی ڈی اے تعینات کر کے ادارے کا ستیاناس کر دیا ہے، آئندہ چیئرمین سی ڈی اے سیول سرونٹس یا بورڈ ممبران میں سے بنایا جائے گا،کمیٹی

جمعرات 19 اپریل 2018 22:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 اپریل2018ء) قومی اسمبلی کی کیبنٹ کمیٹی کا اجلاس زیر صدارت چیئرمین کمیٹی رانا محمد حیات خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا اجلاس میں چیئرمین سی ڈی اے کی تعیناتی کے حوالے سے بل پیش ہوا کمیٹی نے کہا کہ غیر متعلقہ اور نا تجربہ کار افراد کو چیئرمین سی ڈی اے تعینات کر کے اس ادارے کا ستیاناس کر دیا ہے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئندہ کے لئے چیئرمین سی ڈی اے سیول سرونٹس یا بورڈ ممبران میں سے بنایا جائے گا اور یہ بل متفقہ طور پر منظور کیا گیا کمیٹی میں اسلام آباد سمیت ملک بھر کے سکولوں کالجز میں منشیات کے حوالے سے بل پیش کیا گیا ممبر کمیٹی نفیسہ عنایت خان نے یہ بل پیش کیا اس سلسلے میں انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ اسلام آباد کے سکولوں اور کالجز میںقانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی منشیاتی فروشی کا دھندہ سکولوں میں عام ہو چکا ہے بلکہ منشیات فروشوں نے اپنے بچوں کو کالجوں اور سکولوں میں داخل اسی غرض سے کرا رکھا ہے تا کہ نو نہال بچوں تک نشہ آور ڈرگز آسانی سے پہنچائی جا سکیں اس سلسلے میں ممبر اسمبلی اسد عمر نے کہا کہ منشیات فروشی کے جرم میں وفاقی پولیس بھی ملوث ہے کیونکہ میں نے چند والدین کی شکایت پر آئی جی اسلام آباد کو تحریری درخواست پیش کی جنہوں نے منشیات فروشوں کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے درخواست دینے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی اس حوالے سے سیکرٹری کیڈ نے کہا کہ یہ بل لانا ضروری اقدام ہو گا اور اس کے لئے ضابطہ بھی بنانا پڑے گا تا کہ سکولوں کے علاوہ والدین بھی بچوں پر خصوصی توجع دیں چیئرمین کمیٹی نے متفقہ طور پر بل کی منظوری دے دی گئی ۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے E-12کے متاثرین کے حوالے سے سی ڈی اے سے پوچھا کہ کئی سالوں سے معاملہ حل کوں نہیں کیا جا رہا جس پر ممبر اسٹیٹ خوشحال خان نے کہا کہ ہم نے متاثرین کو کہا کہ وہ اپنے تمامایورڈ یافتہ متاثرین کے پلاٹ سی ڈی اے سے لے لیں اور اس کے بدلے زمین کا قبضہ دے دیں جس پر اہلیان علاقہ نے ہمارے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے اب اس کو ہم کیبنٹ میں پیش کر رہے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اچھا ہو گا کہ ایک دیرینہ مسئلہ حل ہو گیا ہے کمیٹی کو اسلام آباد کی کچی بستیوں کے حوالے سے بتایا گیا کہ اسلام آباد کی کچی بستیوں کی حالت زار دیکھنے کے قابل نہیں انسانوں کو جانوروں کے برابر حیثیت نہیں دی جا رہی اور نہ ہی وہاں کے رہنے والوں کو ڈبل سٹوری بنانے کی اجازت ہے جس پرچیئرمین کمیٹی رانا عنایت حیات خان نے ممبر پلاننگ اسد کیانی سے پوچھا کہ اسلام آباد میں ٹوٹل کتنی کچی بستیاں آباد ہیں انہوں نے کہا کہ ٹوٹل 32کچی بستیاں بن چکی ہیں جن میں سے صرف 10بستیوں کو قانونی درجہ حاصل ہے جن کو رہائشیوں نے اپنی مرضی سے پلان کیا پے اور ان بستیوں کے مکانات کو ڈبل سٹوری اس لئے بنانے کی اجازت نہیں کہ ان کی چھتیں کچی ہیں کسی وقت بھی کوئی حادثہ پیش آ سکتا ہے کمیٹی ممبران نے کہا کہ آپ اس حوالے سے باقائدہ ایک پلان تشکیل دیں اگر کوئی آپ کے پلان پر پورا اترتا پے تو اسے ڈبل سٹوری بنانے کی اجازت دی جائے کمیٹی نے کچی بستیوں کے رہائشیوں کو باقائیدہ طور پر ڈبل سٹوری بنانے کی منظوری دے دی ہے کمیٹی میں گرینڈ حیات ہوٹل کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی گئی کمیٹی کو ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور جمیل احمد نے بتایا کہ یہ کیس سابق چیئرمین سی ڈی اے کامران لاشاری کے دور کا ہے اس ہوٹل کے خریدار 4پارٹنر تھے جنہوں نے ساڑھی13ایکٹر جگہ سی ڈی اے سے لیز پر لی اور اس میں 42منزلہ عمارت ہوٹل کے لئے اور 32منزلہ رہائشی فلیٹ بنائے جانے تھے اور 2005میں اس کی ڈیل سی ڈی اے کے ساتھ 4ارب 80کروڑ روپے میں ہوئی تھی جس میں سے مالکان نے 71کروڑ روپے پہلی قسط دی اس کے بعد کوئی قسط ادا نہیں کی گئی جبکہ ہوٹل کا کام 5سال بع شروع کیا گیا چیئرمین کمیٹی نے پوچھا کہ اس میں کون لوگ کرپشن کے مرتکب ہیں ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ اس کی یحقیقات مکمل ہونے کے قریب تھی کے ہائی کورٹ نے اس کیس کی تحقیقات کو روک لیا اور کئی بار یہ کیس عدالت میں پہنچا ہم نے زمہ دار9 افراد کے خلاف انکوائری مکمل کر کے چالان عدالت میں پیش کر دیا ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ ہماری تحقیقات کے مطابق سی ڈی اے اور گرینڈ حیات مالکان کرپشن میں بربر کے زمہ دار ہیں کیونکہ سی ڈی اے سے جب پوچھا گیا کہ اس کو کینسل کوں کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ زون 4میں وقع ہے جہاں پر سی ڈی اے قوانین کے مطابق صرف6منزلہ عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے جب ہم نے تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ سی ڈی اے جھوٹ بول رہا ہے یہ جگہ زون3میںواقع ہے چیئرمین کمیٹی نے گرینڈ حیات کے مالک حفیظ پاشا سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے 10سال قبل ایک ڈیل کی اور رقم بھی جمع نہیں کی اور نہ ہی انسٹالمٹ دی انہوں نے کہا کہ ہم نے 71کروڑ 2005میں جمع کرایا سی ڈی اے نے 2007تک ہمیں قبضہ ہی نہیں دیا اس سلسلے میں جب ہم نے بار بار قبضہ لینے کا کہا تو سی ڈی اے نے پہلے کا کیا ہوا معاہدہ ہی تبدیل کر دیا یہی وجہ ہے کہ ہم نے اقساط لیٹ کر دی تھیں سی ڈی اے سے اس حوالے سے جب پوچھا گیا تو ممبر اسٹیٹ نے کہا کہ یہ معاملہ اس وقت ہائی کورٹ میں ہے اس لئے اس حوالے سے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے چیئرمین کمیٹی نے اس کیس کو عدالت کے فیصلے تک محفوظ کر لیا جبکہ اسلام آباد میں 54نرسریوں کے لئے متاثرین کو جگہ نہ فراہم کرنے پر ممبر پلاننگ کی شدید سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ 15دنوں کے اندر 54نرسریوں کے لئے جگہ مختص کر کے متاثرین کے الاٹمنٹ لیٹر کے ساتھ کمیٹی کو رپورٹ پیش کی جائے ۔

04-18/--59