بلوچستان کا آئندہ مالی سال کا بجٹ 8 مئی کو پیش کیا جائے گا، بجٹ کے حجم کا تخمینہ 350 ارب روپے سے زائد ہوگا

اتوار 29 اپریل 2018 19:40

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اپریل2018ء) بلوچستان کا آئندہ مالی سال 19-2018 کا صوبائی بجٹ 8 مئی کو پیش کیا جائے گا۔موجودہ مخلوط حکومت کا یہ آخری بجٹ ہوگا اور موجودہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں31مئی کو تحلیل ہوجائیں گی جبکہ صوبائی حکومت کو بجٹ پیش کرنے اور منظور کروانے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ایسا اس لئے ہے کہ ایوان میں حکومتی اراکین کی تعداد کم جب کہ حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے،2013کے الیکشن کے بعد صوبے میں دو وزراء اعلی تبدیل ہوچکے ہیںجبکہ تیسرے وزیراعلی میر عبدالقدوس بزنجو 31مئی کواپنے عہدے کی مدت پوری کرینگے،اس سے پہلے نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء اور سابق وزیراعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مری معاہدے کے تحت ڈھائی سال وزارت اعلی کی منصب پر قائم رہے جس کے بعد معاہدے کے تحت مسلم لیگ (ن) کی صوبائی صدر اور چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ خان زہری نے ڈھائی سالہ وزارت اعلی کا عہدہ سنبھالا مگر ناگزیر وجوہات کی بناء پر جنوری2018 کے پہلے ہفتے میں انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی جن میںمسلم لیگ ق ،مسلم لیگ (ن) جمعیت علماء اسلام (ف) ،اے این پی ،بی این پی (عوامی )،بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) ،وحدت المسلمین سر فہرست تھی تاہم نواب ثناء اللہ زہری نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے سے پہلے ہی وزارت اعلی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد مسلم لیگ ق کے رکن صوبائی اسمبلی اور نوجوان سیاست دان میر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلی منتخب کیا گیا صرف پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے انکا ساتھ نہیں دیا بلکہ پشتونخواملی عوامی پارٹی نے اپنا امیدوار اور پارٹی کے پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال کو نامزد کیا تھا کیونکہ اس وقت اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا تھا میر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلی بلوچستان لانا ہے جس کے بعد وہ بھاری اکثریت سے وزیراعلی بلوچستان منتخب ہوگئے تھے اور پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے اسمبلی میں اپوزیشن کا رول ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا،سرکاری ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حجم کا تخمینہ 350 ارب روپے سے زائد ہوگا جس کے لیے تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوگئیں۔

(جاری ہے)

صوبے کا بجٹ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار خاتون وزیراعلی کی مشیر خزانہ ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی پیش کریں گی جن کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ مخلوط حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے معاشرے کے تمام طبقوں تاجروں، زمینداروں، ڈاکٹرز، انجینئرز سے لے کر ریڑھی بانوں تک کو بجٹ میں شامل کیا جائے۔ذرائع کے مطابق نئے سال کا بجٹ بھی خسارے کا ہی ہوگا، خسارہ لگ بھگ پچاس ارب روپے تک ہونیکا امکان ہے جسے اخراجات میں کمی اور سادگی سمیت مختلف اقدامات کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

بجٹ کے حوالے سے ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی نے میڈیا کو بتایا کہ بجٹ کے لیے مخلوط حکومت میں شامل اراکین سے مشاورت جاری ہے اور اس سلسلے میں صوبے کے مختلف طبقوں کے افراد سے بھی مشاورت کی گئی ہے۔ڈاکٹر رقیہ سعیدہاشمی کے مطابق بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کا حجم 90 ارب روپے تک ہونے کا امکان ہے جب کہ مالی سال 18-2017 کے بجٹ کا ترقیاتی پروگرام تقریباً 86 ارب روپے پر مشتمل تھا۔

مشیرخزانہ کا کہنا تھا کہ آئندہ سال کا بجٹ ٹیکس فری ہوگا اور اس میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جارہا ہے، بجٹ میں پہلے کی طرح تعلیم،صحت اور امن وامان کو زیادہ ترجیح دی جائیگی۔ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی کا کہنا ہے کہ کوشش کی گئی ہے کہ بجٹ میں اجتماعی نوعیت کی اسکیموںکوبھی شامل کیا جائے اور انفرادی اسکیموں کو بجٹ میں شامل نہ کیا جائے۔

مشیر خزانہ ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی نے یہ بھی بتایا کہ رواں سال کے ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے بیشتر رقم جاری کی جاچکی ہے۔دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق صوبائی حکومت کو بجٹ پیش کرنے اور منظور کروانے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ایسا اس لئے ہے کہ ایوان میں حکومتی اراکین کی تعداد کم جب کہ حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے لیکن مشیر خزانہ پٴْرامید ہیں کہ اس سے حکومت کو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔

بلوچستان اسمبلی میں اس سے پہلے نواب اکبر بگٹی کے دور میں بھی یہی صورتحال تھی۔ دوسری جانب صوبے میں عام افراد کی بجٹ سے کافی امیدیں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حکومت بجٹ پیش کر رہی ہے بہت اچھی بات ہے مگر اس کے اثرات عام افراد تک پہنچنا چاہیے، بجٹ صرف اعداد و شمار کا ہیر پھیر نہیں ہونا چاہیے۔عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ صحت، تعلیم اور امن و امان کے علاوہ مختلف سماجی شعبوں کے لئے مختص کی گئی بھاری رقوم واقعتاعوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی ترقی پرخرچ ہونی چاہیے نہ کہ ترقیاتی منصوبے اور اسکیمیں صرف کاغذوں تک محدود رہیں۔