سنٹرل جیل ہری پور سے جعلی مذہبی اسناد کے ذریعہ رہائی پانے والے 16 قیدیوں کی محکمانہ انکوائری رپورٹ نیب خیبر پختونخوا کو پیش کر دی گئی

بدھ 2 مئی 2018 14:12

ہری پور ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 مئی2018ء) سنٹرل جیل ہری پور سے جعلی مذہبی اسناد اور معافی ناموںکے ذریعہ رہائی پانے والی16 قیدیوں کے کیس کی محکمانہ انکوائری رپورٹ نیب کو پیش کر دی گئی ہے۔ انکوائری افسر کی سفارشات کے باوجود بھی بیشتر مبینہ ملوث افسران کے خلاف کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی۔ صرف ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ زمان خان بابر اور سینئر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نورالبصر کو جبری ریٹائر کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق نومبر 2016ء میں ایک میڈیا رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ مانسہرہ جیل میں ایک سال کے دوران بھاری معاوضوں کے عوض 16 قیدیوں کو مذہبی تعلیم کے جعلی سرٹیفکیٹس دیکر معافیاں لگا کر رہا کیا گیا ہے۔ مانسہرہ جیل کی انتظامیہ نے ایسی رہائی کو مسترد کیا تو 28 نومبر کو سپرنٹنڈنٹ ہری پور سنٹرل جیل خالد عباس نے نوٹس لیکر آئی جی جیل خانہ جات کو آگاہ کیا اور معاملہ کی انکوائری کی سفارش کی جس پر مردان جیل کے سپرنٹنڈنٹ صاحبزادہ شاہ جہاں اور سب جیل داسو کوہستان کے سپرنٹنڈنٹ زاہد خان کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنائی گئی۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے سنٹرل جیل ہری پور کی وارنٹ برانچ کا ریکارڈ تحویل میں لیکر تفتیش کی تو پتہ چلا کہ کمال مہارت سے معافی ناموں میں ردو بدل کر کے 16 قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ اس معاملہ میں کئی افسران اور وارنٹ برانچ کا ایک اہلکار بھی شامل ہے جس نے کئی افسران کو اندھیرے میں رکھ کر ان کو استعمال کیا ہے۔ محکمانہ رپورٹ جمع ہوئی تو صوبائی حکومت نے سپرنٹنڈنٹ خالد عباس، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ زمان خان بابر، حاجی ایوب خان اور چار اسسٹنٹ اور سینئر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹس، وارنٹ برانچ کے ایک وارڈر کو معطل کر کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے آفیسر فرخ سیر کو انکوائری آفیسر مقرر کیا جنہوں نے حتمی رپورٹ جمع کروائی لیکن رپورٹ کی روشنی میں صرف ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ زمان خان اور سینئر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نورالبصر بابر کو جبری ریٹائر کیا گیا جبکہ جن افسران کی تنزلی اور سخت سزائوں کی مبینہ طور پر سفارش کی گئی اُن میں سے اکثر کو وارننگ اور کئی ایک کو معمولی سزا دیکر چھوڑ دیا گیا جبکہ جعلی معافی ناموں اور اسناد کے ذریعہ رہا ہونے والے 16 میں سے صرف ایک قیدی کو واپس لایا جا سکا ہے اور پندرہ ابھی بھی قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔

ذرائع کے مطابق ان جعلی رہائی والو ں میں بیشتر قیدی منشیات کے مقدمات میں سزا یافتہ تھے جن کی گرفتاری کیلئے ڈی پی اوز کو بھی جیل حکام کی جانب سے لیٹر بھی لکھے گئے لیکن کوئی بھی قانون کی گرفت میں نہیں آ سکا۔ نیب خیبر پختونخوا نے ایک سال سے زائد کا وقت گذرنے کے بعد مذکورہ کیس کا نوٹس لیکر محکمانہ انکوائری رپورٹ طلب کی تھی۔

متعلقہ عنوان :