بلوچستان اسمبلی ، میر چا کر خان رند کے مسودہ قانون پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور حکومتی اراکین کے درمیان شدید ہنگامہ آرائی ، ایک دوسرے پر شدید الزامات

سپیکر نے سید لیاقت آغا ، عبیداللہ بابت کے مائیک بند کر دیئے

بدھ 30 مئی 2018 21:44

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 مئی2018ء) بلوچستان اسمبلی میں میر چا کر خان رند کے مسودہ قانون پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین اور حکومتی اراکین کے درمیان شدید ہنگامہ آرائی اور ایک دوسرے پر شدید الزامات اسپیکر نے سید لیاقت آغا ، عبیداللہ بابت کے مائیک بند کر دیئے اور کہا کہ کچھ اراکین ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا ہے کہ ایوان میں آج زبردستی مسلط کی جا رہی ہے کسی کی زبردستی کو تسلیم کو نہیںکرینگے پشتونوںکی تاریخ کو مسخ نہیں ہونے دینگے اجلاس میں مولانا محمد خان شیرانی بین الاقوامی یونیورسٹی برائے سائنس وٹیکنا لو جی بلوچستان اسسمنٹ اینڈ ایگزا مینیشن کمیشن اور میر چا کر خان رند یونیو رسٹی سبی کی مسودہ قانون وتحریک شدید ہنگامہ آرائی میں منظور کرلی گئی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راحیلہ حمید درانی کی صدارت میں ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا اجلاس میں واقفہ سوالات کونمٹا دیا گیا جمعیت علماء اسلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع نے مولانا محمد خان شیرانی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی برائے سائنس وٹیکنا لوجی کوئٹہ کا مسودہ قانون پیش کر دی اور ایوان نے متفقہ طور پر تحریک کو منظور کرلی جمعیت علماء اسلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پرائیویٹ بل منظور کرلی گئی اور یہ بل تعلیمی ادارے کے حوالے سے کیونکہ بلوچستان پہلے ہی تعلیمی پسماندگی کاشکار رہا ہے یونیورسٹی سے متعلق بل منظور ہونے پر تمام اراکین اور سیاسی جماعتوں کے مشکور ہوںکہ انہوں نے اپنا کردارادا کیا رکن صوبائی اسمبلی نصر اللہ زیرے نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق پہلے قرارداد ہونی چا ہئے وزیراعلیٰ بلوچستانمیر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ ایوان میں پہلے قانونی کا رروائی ہونی چا ہئے تاہم اسپیکر نے ایوان سے رائے اور ووٹنگ کے ذریعے پہلے قانون سازی بعد میں قراردادیں پیش کی ایوان میں چیئر پرسن مجلس قائمہ برائے تعلیم خواندگی وغیر رسمی تعلیم اعلیٰ کوالٹی ایجو کیشن صدارتی پروگرام سی بی ڈبلیو ای او سائنس ٹیکنا لوجی وانفارمیشن ٹیکنا لو جی شاہدہ روف نے بلوچستان بلوچستان اسسمنٹ اینڈ ایگزا مینیشن کمیشن پیش کر دی اور صوبائی وزیر تعلیم طاہر محمود نے ایوان میں تحریک پیش کی ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلی اپوزیشن رکن سید لیاقت آغانے اعتراض اٹھایا کہ زبردستی نہ کیا جائے وزیرداخلہ ہر معاملے میں مداخلت نہ کرے پتہ ہے کہ کہا سے حکم ملی ہے اسپیکر راحیلہ حمید درانی نے کہا ہے کہ اپوزیشن حوصلہ رکھیں جو ایوان میںنہیں آیا اس پر بات نہ کرے تاہم اس دوران اپوزیشن اور خاص کر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین نے شدید ہنگامہ آرائی کی اسپیکر نے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے اراکین کو منانے کی بہت کوشش کی تا ہم وہ ناکام رہے اور اراکین مسلسل بولتے رہے اسپیکر نے کہا ہے کہ ایوان میں تین ارکان ماحول خراب کر تے ہیں اور شدید برہمی کا اظہار کر تے ہوئے سید لیاقت آغا اور مابت لالا کا مائیک بند کر دی صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ سنجیدگی سے بات کرے تو کریں ایوان کوئی سبزی منڈی یا مچھلی منڈی نہ بنایا جائے اپوزیشن لیڈر سے بات ہو گی کراس بات کوئی نہیں کرے گا اسپیکر نے کہا ہے کہ ہر ممبر کو بات کرنے کی اجازت رکن صوبائی اسمبلی میر خالد خان لانگونے کہا ہے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین کو چاکر خان رندیونیورسٹی کے بل سے متعلق تکلیف ہے اس لئے وہ شور شرابا کر رہے ہیں جس پر بابت لالا نے شدید ہنگامہ آرائی کر تے ہوئے کہا ہے کہ مارشل لاء کا دور نہیں ہے انتظار کروں بلوچوںکا حکومت ہے لورالائی کا نام تبدیل کرکے پڑنگ آباد رکھا جائے بابت لالا مسلسل بولتے رہے اور ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی کی اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ جس طرح ایوان چلا تے رہے ہیں یہ ایوان ہے یہاں مذاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے میر خالد کو اگر چاکر خان نام سے پیار ہے تو قلات میں جہاں کہیں رکھے ہمیں کوئی اعتراض نہیں 1804 میں ایک کتاب لکھی ہے کہ سبی افغانستان کا گرم ترین علاقہ ہے میں افغان ہوں اور رہونگا کسی کو اگر کوئی تکلیف ہو تو اس کو تکلیف نہیں ہونی چا ہئے زبردستی مسلط نہ کی جائے افغانستان میرا پہلا وطن تھا اور اب پاکستان میرا وطن ہے اپنی سرزمین کی بات کرینگے اکثریت آپ لوگوںکی ہو گی اور ہماری شناخت کو ختم کیا جا رہا ہے بلوچستان کی شخصیات کا احترام اور محبت ہے یاسمین لہڑی نے کہا ہے کہ چیخیں چلانے سے بات نہیں ہو نی چا ہئے خاتون کی بات کو برداشت کرنا چاہئے اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا ہے کہ اسپیکر آپ سے شکوہ وشکایات ہے آئین کے دستاویز کو دیکھا جائے آپ کی غصہ اپنی جگہ لیکن آئین وقانون کو دیکھا جائے صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے نصر اللہ زیر ے کے گریبان پکڑنے کی کوشش کی تا ہم ارکان اسمبلی نے بچ بچائو کرایا اس موقع پر اسپیکر نے کہا ہے کہ یہ وقت بتائے گا کس نے کیا سوداکیا ابھی اسوقت اسمبلی اجلاس میں کچھ نہیں کہونگی خواتین کو گالیاں دی اسمبلی کے باہر آپ سے بات ہو گی پشتونخواملی عوامی پارٹی کے اراکین نے ایوان کو مچھلی بازار بنا یا ہے خواتین کیساتھ جو سلوک کیا گیا وہ افسوسناک ہے اجلاس کے دوران کئی بار اسپیکر نے اپوزیشن ارکان کا مائیک بند کرنے کا حکم دیا اور اسپیکر نے اسمبلی سارجنٹ کو حکم دیا کہ ان کو باہر نکالا جائے تا ہم اس کی نوبت نہیں آئی اسپیکر کے حکم پر اپوزیشن کے تمام مائیک بند کر دیئے مگر اس کے باوجود اپوزیشن لیڈر رحیم زیارتوال، مابت لالا، لیاقت آغا، نصر اللہ زیرے مسلسل بولتے رہے بعد میں جو الفاظ اسپیکر کے بارے میں نازیبا الفاظ کئے گئے اسپیکر نے اس کوکارروائی سے حذب کرنے کا حکم دیااجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے آئینی قرارداد ایوان میں پیش کر تے ہو ئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 144 کے تحت مجلس شوریٰ کو اختیار دیتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد سے متعلق قانون سازیں کرے جو صوبہ بلوچستان میں نافذ العمل ہے اور اس بابت قومی حکمت عملی بھی وضح کریں انہوںنے کہا ہے کہ دھماکہ خیز مواد مثبت اورمنفی دنوں جگہ استعمال ہو تا ہے مگر چند سال کے دوران بد قسمتی سے بارود کا غلط استعمال زیادہ ہو رہا ہے مائنگ کی بجائے بارود ، دہشتگردی کے واقعات میں استعمال ہوتا ہے اس حوالے سے تینوں صوبوں نے قرارداد کے ذریعے قانون سازی کا اختیار وفاق کو دیدیا ہے یہ حساس معاملہ اور اس میں یکسر قوانین ہونے چا ہئے لہٰذا یہ ایوان قرارداد کو منظور کرکے اس معاملے پر قانون سازی اورپالیسی بنانے کا اختیار وفاق کو دیں اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا ہے کہ اسمبلی میں قرارداد لانے سے پہلے دو یا تین دن قبل اراکین کو اس حوالے سے آگاہ کیا جانا چا ہئے تا کہ ہم اس پر سیر حاصل بحث کرسکے انہوںنے کہا کہ ملک میں دوہرا معیار رکھا جا رہا ہے ایک طرف آئین شکنی پر ایک شخص کو دس سال جبکہ دوسری طرف قلعہ سیف اللہ میں1200 کلو گرام دھماکہ خیز مواد دھماکہ ہوا بتایا گیا کہ یہ مواد ایک گھر میں موجود تھا لیکن پھر بعد میں اس معاملے پر خاموشی کیوں اختیار کر لی گئی یہ وزیر داخلہ بتائیں انہوں نے کہا کہ پشتون وبلوچ اس صوبے میں سیال قوم کی حیثیت رہ رہی ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک حلقے کو دوسرے حلقے میں شامل کر کے وہاں رات بارہ بجے تک ووٹنگ کرائی جائے بلوچستان کی عوام کو یر غمال نہیں بنانے دینگے ہمیں صوبے سے نکالا جا رہا ہے ہم اپنی سرزمین پر بیٹھ کر اپنی نمائندگی کرینگے بلوچ اپنے علاقوں میں اپنی نمائندگی کرے ہم دوہرا معیار کسی صورت نہیں چلنے دینگے تاریخ کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دینگے حکومت کے فیصلوں سے ہمارے راستے الگ ہو رہے ہیں میں پوری پشتون قوم کی جانب سے چاکر رند یونیورسٹی بل کی مخالفت اورمذمت کر تا ہوں اس موقع پر اسپیکر نے ایک مرتبہ پھر پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن عبید اللہ بابت کو غیر مناسب نعرے لگانے پر تنبہہ کی کہ وہ انہیں ایوان سے نکال دے گی انہوںنے کہا کہ میں جس سیٹ پر بیٹھی اس کے احترام میں خاموش ہو ںمجھے مجبور نہ کیا جائے صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے عبید اللہ بابت کی جانب سے لگائے جانیوالے نعروں کو کارروائی سے حذف کرنے کی درخواست کی جس کے بعد اسپیکر نے اسمبلی اجلاس ملتوی کر دیا ۔