سپریم کورٹ کا نجی کمپنی کے پی ایم جی کو پی ایس او کے آڈٹ، تمام اداروں کو اس سے تعاون کا حکم

نیب کو ایم ڈی پی ایس او کی تقرری معاملے کی تحقیقات، 6ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم ،سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی ایم ڈی پی ایس او کو ماہانہ 37لاکھ روپے تنخواہ دی جاتی ہے، نہیں جانتے کہ بھاری تنخواہیں شفاف طریقے سے دی جا رہی ہیں، پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں،نجی کمپنی پی ایس او اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے معاملے کا آڈٹ کرے گی، پی ایم جی 5ہفتے میں آڈٹ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس

ہفتہ 14 جولائی 2018 15:59

سپریم کورٹ کا نجی کمپنی کے پی ایم جی کو پی ایس او کے آڈٹ، تمام اداروں ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 14 جولائی2018ء) سپریم کورٹ نے نجی کمپنی کے پی ایم جی کو پی ایس او کے آڈٹ کا حکم اور تمام اداروں کو نجی کمپنی کے پی ایم جی سے تعاون کا حکم دیتے ہوئے نیب کو ایم ڈی پی ایس او کی تقرری کے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا، سپریم کورٹ نے نیب پراسیکیوٹر کو 6ہفتے میں رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ایم ڈی پی ایس او کو ماہانہ 37لاکھ روپے تنخواہ دی جاتی ہے، نہیں جانتے کہ بھاری تنخواہیں شفاف طریقے سے دی جا رہی ہیں، پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں،نجی کمپنی پی ایس او اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے معاملے کا آڈٹ کرے گی، پی ایم جی 5ہفتے میں آڈٹ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی ۔

(جاری ہے)

ہفتہ کو سپریم کورٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اٹارنی جنرل نے پٹرولیم مصنوعات کی کوالٹی اور درآمد سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی، سپریم کورٹ نے ایم ڈی پی ایس او کی تعیناتی اور مراعات کے معاملے میں نیب کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب یہ بھی بتائے کہ ایل این جی پر ہونے والی تحقیقات کہاں تک پہنچیں، حکومت کا یہ طریقہ کار ہے نجی کمپنیاں بنائو، اپنے بندے لگائو اور ان کو فائدہ پہنچائو۔

چیف جسٹس نے ایم ڈی پی ایس او سے مکالمہ کیا کہ کیوں نا آپ کو معطل کر دیا جائے،آپ کو کب اور کس کی سفارش پر تعینات کیا گیا ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ مجھے 2015میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے تعینات کیا، شاہد خاقان عباسی نے کمیٹی کی سفارش پر مجھے تعینات کیا، اشتہار کے ذریعے حکومت نے 6نام فائنل کئے جس میں سے مجھے چنا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا تو پٹرولیم کا تجربہ ہی نہیں ہے، کسی قومی ایجنسی کے ذریعے آپ کی تعیناتی سے متعلق تحقیقات کرالیتے ہیں، پی ایس او کا آڈٹ بھی آڈیٹر جنرل سے کرالیتے ہیں، اس ملک میں کیا لٹ پڑی ہوئی ہے کہ ٹیکس کا پیسا لٹایا جائے،2سے اڑھائی لاکھ تنخواہ والے گریڈ22کے افسر کو 4لاکھ دے کر ایم ڈی بنایا جا سکتا تھا۔

ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ پی ایس او کا چارج سنبھالا تو منافع 6ارب تھا، بڑھا کر 18ارب کر دیا ہے، سپریم کورٹ نے نجی کمپنی کے پی ایم جی کو پی ایس او کے آڈٹ کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نجی کمپنی پی ایس او اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے معاملے کا آڈٹ کرے گی، پی ایم جی 5ہفتے میں آڈٹ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی، سپریم کورٹ نے تمام اداروں کو نجی کمپنی کے پی ایم جی سے تعاون کا حکم دے دیا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نجی کمپنی کو ریکارڈ اور دستاویزات کی فراہمی بھی یقینی بنائی جائے، عدالت نے نیب کو ایم ڈی پی ایس او کی تقرری کے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے پی ایس او میں 15لاکھ یا زائد تنخواہ لینے والے سینئر افسران کی تعیناتیوں کی تحقیقات کا حکم دے دیا، تحقیقات کی جائیں تقرریوں میں اقربا پروری اور سیاسی اثرورسوخ استعمال تو نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایم ڈی پی ایس او کو ماہانہ 37لاکھ روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب پراسیکیوٹر کو 6ہفتے میں رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نہیں جانتے کہ بھاری تنخواہیں شفاف طریقے سے دی جا رہی ہیں، پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔