میمو گیٹ کیس ،ْحسین حقانی کو نیب کے ذریعے واپس لایا جاسکتا ہے

عدالتی معاون احمر بلال صوفی نے سابق سفیر حسین حقانی کو واپس لانے کے لئے قانونی ڈرافٹ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کردیا حسین حقانی نے توہین عدالت کی ہے،ان کے ریڈ وارنٹ جاری کیے گئے،حسین حقانی نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا ،ْ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کی احمر بلال صوفی کو اپنی تجاویز اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت ،ْ سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دی گئی

جمعرات 9 اگست 2018 22:08

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 اگست2018ء) میمو کمیشن کیس میں عدالتی معاون احمر بلال صوفی نے سابق سفیر حسین حقانی کو واپس لانے کے لئے قانونی ڈرافٹ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کردیا۔ڈرافٹ کے مطابق حسین حقانی کا ریڈ وارنٹ بھی انہیں امریکا سے واپس نہیں لاسکتا تاہم انہیں نیب کے ذریعے ملک لایا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جمعرات کو میمو کمیشن کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری درخواست پر حسین حقانی کو پاکستان لانا شاید ممکن نہیں ہے۔جس پرعدالتی معاون نے کہا کہ دفتر خارجہ امریکا سے مایوسی کا اظہار کر سکتا ہے، حسین حقانی کو توہین عدالت عدالت کیس میں وطن لانا ممکن نہیں جبکہ سفارتخانہ فنڈز میں خوردبرد کیس ان کو واپس لانے کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے جس کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی۔

(جاری ہے)

احمر بلال کی جانب سے پیش کیے گئے ڈرافٹ میں کہا گیا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ نہیں ہے۔ڈرافٹ کے مطابق حسین حقانی کے خلاف سفارتخانہ فنڈز میں خوردبرد کیس انہیں واپس لانے کیلئے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ڈرافٹ کے مطابق حسین حقانی کو نیب قانون کے تحت ہی واپس لایا جاسکتا ہے، ریڈ وارنٹ جاری ہونے پر انہیں واپس نہیں لایا جاسکتا کیونکہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہے جو حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ جاری ہوئے ہیں وہ بے اثر ہیں دوران سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ حسین حقانی نے توہین عدالت کی ہے،ان کے ریڈ وارنٹ جاری کیے گئے،حسین حقانی نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ مبینہ طور پر پاکستان میں جہاز آگیا ہے پاکستان کے ملزمان کو جہاز لے جائیگا ،ْہم کیسے بیرون ملک سے اپنے لوگوں کو واپس لا سکتے ہیں بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے احمر ہلال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی تجویز ہے کہ ایف آئی اے کے بجائے نیب کو اس کی واپسی کا معاملہ بھیجا جائے۔جس پر احمر ہلال نے کہا کہ جی ،ْنیب کے قوانین میں اٴْسے اختیار ہے، بیرون ملک سے معلومات لینا یا عالمی گینگ کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی میکینزم نہیں ہے۔

ایف آئی اے بیرون ملک سے جب درخواست کرتی ہے تو لیگل فریم ورک نہ ہونے کی وجہ سے ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے ایف آئی اے سے معاملہ نیب کو منتقل کردیا جائے ،ْنیب قانونی معاہدوں کے تحت بیرون ملک سے حسین حقانی کو واپس بلا سکتی ہے۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے احمر بلال صوفی کو اپنی تجاویز اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے نیب سے بھی رائے طلب کرلی اور کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئیواضح رہے کہ سپریم کورٹ نے رواں سال 2 فروری کو متنازع میمو گیٹ کیس کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 3 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے میمو گیٹ کیس میں دیگر فریقین بشمول سابق وزیر اعظم نواز شریف کے، نوٹسز جاری کیے تھے۔میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا تھا۔