سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی کی زیر صدارت سینیٹ فورم برائے پالیسی ریسرچ کا اجلاس

ملک میں پانی کی قلت کے حوالے سے تیار کی گئی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا ، سینئر واٹر ریسورس سپیلشٹ انجینئر ڈاکٹر محمد ارشد سے پانی کی قلت کو حل کرنے کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ لی گئی

جمعہ 31 اگست 2018 20:40

سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی کی زیر صدارت سینیٹ فورم برائے پالیسی ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 اگست2018ء) سینیٹ فورم برائے پالیسی ریسرچ کا اجلاس چیئرمین فورم سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی کی زیر صدارت ادارہ برائے پارلیمانی خدمات کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔ فورم اجلاس میںملک میں پانی کی قلت کے حوالے سے تیار کی گئی رپورٹ کا جائزہ لینے کے علاوہ ، سینئر واٹر ریسورس سپیلشٹ انجینئر ڈاکٹر محمد ارشد سے پانی کی قلت کو حل کرنے کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ لی گئی۔

چیئرمین فورم نے کہا کہ ملک و قوم کے بہتر مستقبل کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کو جذبات کی بجائے حقائق کے مطابق سخت فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ آنے والی نسلیں پانی کی بوند کو ترسیں گی، پانی کی کمی کو پوراکرنے کے حوالہ سے چیئرمین سینٹ سے درخواست کی جائے گی کہ یہ معاملہ پورے ایوان کی کمیٹی میں اٹھایا جائے جس میں ماہرین سمیت تمام سٹیک ہولڈر ز سے مشاورت کرکے رپورٹ تیار کی جائے۔

(جاری ہے)

سینٹ فورم برائے پالیسی ریسرچ کو انجینئر ڈاکٹر محمد ارشد نے پانی کی قلت کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک میں پانی کی دستیابی اور قلت کو پوراکرنے کے حوالے سے نظر انداز کیا گیا۔ پانی بہت اہم مسئلہ ہے۔ ملک کی معیشت، ماحول، صنعت، بجلی، زراعت و دیگر اہم شعبوں کا پانی سے بہت گہرا تعلق ہے۔ پانی کی قلت عالمی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔

امریکہ اور آسٹریلیا سمیت دینا کے کئی ممالک پانی کی کمی کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ موسمی تغیرات اور آبادی میں اضافہ ، پانی کی قلت کی بنیادی وجہ ہیں ۔ دنیا میں زراعت کے شعبہ میں 70 فیصد پانی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں 90 فیصد استعمال کیا جاتا ہے، مختلف ممالک نے جدید ٹیکنالوجی اور ڈیمز تیار کرکے پانی کی کمی کو پورا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1947ء میں سالانہ فی کس60 5,2 کیوبک میٹر پانی موجود تھا جو 2018ء میں ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم ہوچکاہے۔ پاکستان ایشیاء پیسفکم ریجن میں 48 ممالک میں سے 46ویں نمبر پر ہے جو پانی کی قلت کا سامنا کررہا ہے۔ انہوں نے گذشتہ30 سالوں کے دوران دریا ئے جہلم چناب اور سندھ میں پانی کے بہاؤ بارے بھی آگاہ کیا کہ کم سے کم 97 ملین ایکڑ فٹ زیادہ سے زیادہ 177 اور اوسطاً 149ملین ایکڑ فٹ رہا ہے۔

25 سے 50 فیصد پانی ڈیموں سے فصلوں تک پہنچنے میں ضائع ہوجاتا ہے جس کی بنیادی وجہ ناقص مینجمنٹ سسٹم ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہائیڈرو میٹرولوجیکل ڈیٹا کی کمی ہے ۔ پانی کی طرف کم توجہ دی گئی اور پہلی دفعہ نیشنل واٹرپالیسی کا ڈارفٹ 2011ء میں تیار ہوا اور 2018ء میں منظوری دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایک تھنک ٹینک بنانے پاکستان میں نیشنل واٹر کمیشن قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جب تک بڑے ایشوز پر ہم آہنگی پیدا نہیں کی جائے گی یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یونیورسٹیوں میں اس حوالے سے مضامین شروع کیے جائیں، نیشنل واٹر پلان بنایا جائے اور سپلائی کے سسٹم کو مزید موثر بنایا جائے۔ سینیٹر چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ سیاسی نظر سے دیکھنا چاہئے کہ پانی کا مسئلہ کہاں ہے اور حل کیا ہے۔ ہمیںجذبات سے نکل کر فیصلے کرنا ہوں گے۔

اس فورم کا مقصد ایشوز کا جائزہ لے کر حکومت کو تجاویز دینا ہیں، ممبران کو سیاسی وابستگی سے ہٹ کر کالا باغ ڈیم سمیت دیگر ڈیمز کو زیر بحث لاکر حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ہم 31 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینک دیتے ہیں اس بارے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے، مون سون اور گلیشئر کے پگھلنے پر اضافی پانی آتا ہے اسے جمع کیا جاسکتا ہے۔

صوبائی وزیر آبپاشی سینیٹر محسن خان لغار ی نے کہا کہ نہروں اور کھالوں سے زمین تک 60 فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے۔1970ء میں 50 ہزار ٹیوب ویلز تھے اب 12 لاکھ سے بھی زائد ہیں جو زیر زمین پانی کی سطح کو تباہ کرتا ہے، اگلے ماہ صوبہ پنجاب میں اس حوالے سے ایک پالیسی تیار کرلی جائے گی، ہمیں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، سالانہ آبیانہ فی ایکڑ کسان سے 135روپے وصول کیا جاتا ہے جو بہت ہی کم ہے اور یہ منصوبہ بندی بھی کی جارہی ہے کہ شہروں میں پانی کی کمی کو پور اکرنے کیلئے نہروں سے پانی حاصل کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ دریائے راوی اور ستلج کے درمیان کی زمین کو دوآب کہتے ہیں جہاں 24 ملین ایکڑ فٹ پانی گزرتا تھا جو اب 2ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم ہے اس لیے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے گنے کی کاشت پر پابندی کی جائے۔سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ سروس پمپز بند کرانے چاہئیں۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے جرمانے عائد کرنے کے لیے اگر قانون سازی کی ضرورت ہو تو کرنی چاہیے لوگوں کو شعور دینا ہوگا۔

چیئرمین فورم نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے سیاسی سوچ نہیں ہے اگر یہ بن گئی تو مسئلے حل ہوجائیں گے۔ فورم نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں وفاقی وزیر امور خارجہ کو بلاکر خارجہ پالیسی کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔ فورم کے اجلاس میں سینیٹرز نزہت صادق، فیصل جاوید، بیرسٹر محمد علی سیف، ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی،چوہدری شجاعت حسین، افراسیاب خٹک، الیاس احمد بلور، سحر کامران، میر محمد نصیر مینگل اور محسن خان لغاری اور سیکرٹری فورم پالیسی ڈاکٹر سید پرویز عباس نے شرکت کی ۔