امام حسین کی قربانیوں کو یاد کرنے کے ساتھ پیغام پر بھی عمل کیا جائے ،سید منورحسن

امام حسین ؓ سے عقیدت ومحبت کا تقاضہ ہے کہ اقتدار اور اختیار کے غلط استعمال کو روکا جائے ،ضلع وسطی کے تحت تربیتی اجتماع سے خطاب تربیتی اجتماع سے راشد نسیم ، ممتاز سہتو، حافظ نعیم الرحمن، ڈاکٹر اسامہ رضی، منعم ظفر اور دیگرنے بھی خطاب کیا

جمعرات 20 ستمبر 2018 22:54

امام حسین کی قربانیوں کو یاد کرنے کے ساتھ پیغام پر بھی عمل کیا جائے ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 ستمبر2018ء) جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر سید منورحسن نے کہا ہے کہ عاشورہ کے دن کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے ،حضرت امام حسین ؓ اوران کے اہلخانہ کی قربانیوں اور جدوجہد کو یاد کرنے اور اس کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ان کے راستے پر چلنے اور ان کے پیغام اور درس عمل بھی کریں،دین کو غالب کرنے کی جدوجہد کا حصہ بنیں،حضرت امام حسین ؓ سے عقیدت ومحبت کا تقاضہ ہے کہ اقتدار اور اختیار کے غلط استعمال کو روکا جائے اور اللہ کے دین کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔

ان خیالات کا اظہا رانہوں نے جمعرات کے روز جامع مسجد الہدیٰ نارتھ کراچی میں جماعت اسلامی ضلع وسطی کے تحت ایک روزہ تربیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اجتماع سے جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم، صوبہ سندھ کے سکریٹری ممتاز حسین سہتو، امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ،نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی ،ضلع وسطی کے امیر منعم ظفر خان ، سکریٹری ضلع محمد یوسف اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

سید منور حسن نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ حضرت امام حسین ؓ انتہائی ذہین ،زیرک اور دین کا علم رکھنے والے انسان تھے اور اپنے عمل پر ثابت بھی کیا ۔ انہوں نے اپنے دور میں اقتدارکے غلط استعمال کا نوٹس لیا اور اسے قبول اور تسلیم نہیں کیا ۔سید منورحسن نے کہاکہ مولانا مفتی شفیع عثمانی نے ووٹ کی شرعی حیثیت کے حوالے سے جو فتویٰ اور تفصیل بیان کی ہے اس میں شامل ہے کہ ہر شخص کو حق حکمرانی حاصل ہے لیکن ہر شخص حکمران نہیں بن سکتا،حکمرانی کی اہلیت کے لیے کچھ شرائط اور اوصاف ہیں ،حکمران کو ان اوصاف اور شرائط کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔

راشد نسیم نے کہاکہ مولانا مودودی ؒ نے قوموں کے عروج و زوال کے اسباب کا مطالعہ کر کے سمجھایا اور دعوت و تربیت کے طریقے بتائے ان کا مقصد صرف لوگوں کو جمع کرنا نہیں تھا بلکہ ایک گروہ جو اسلام کی اصل تصویر سامنے لاسکے ۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں لانا اور اسلامی حکومت قائم کرنا ہی مولانا مودودیؒ کی دعوت او ر جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد ہے ۔

انہوںنے کہاکہ مولانا مودودیؒ کا لٹریچر پورے عالم میں مسلمانوں کی ضرورت ہے ، مدینے کی ریاست قائم کرنے کے لیے اپنی ذات کی بھی قربانی دینی پڑے گی۔ممتاز حسین سہتو نے کہاکہ قرآن مجید کی صحبت تحریک اسلامی کے کارکنان کے لیے بہت اہم ہے ، قرآن کا علم حاصل کرنا ایک مسلسل عمل ہے اس کے بغیر انسان منزل تک نہیں پہنچ سکتا ۔اللہ سے تعلق والوں کی شان ہی نرالی ہے ۔

اگر ہم کامیابی چاہتے ہیں تو پاکیزگی اختیار کرنی ہوگی ، بندگی کا نام ہی پاکیزگی ہے ،تقسیم سے معاشرہ نہیں بنتا سب کو جڑنا ہی پڑے گابس صرف اپنے رب کو یاد کریں اور رب سے رجوع کریں اس کو ہی اپنا مرکز بنالیں۔حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ جماعت اسلامی ایک دعوت اور تحریک ہے جس کا مقصد اللہ کے دین کو اس سرزمین میں نافذ کرنا ہے اور غلبہ واقامت دین کی جدوجہد میں شریک ہوکر خود کے لیے آخرت کی کامیابی اور رضائے الہیٰ کا حصول ممکن بنانا ہے ۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے اسی مقصد کے لیے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی ، اس کا دستور بنایا ،جدوجہد کا طریقہ کار طے کیا ارو ہم آج تک اس پر کاربند ہیں، اس جدوجہد میں تطہیر افکار اور اصلاح معاشرہ ایک بنیادی کام ہے ۔ اس جدوجہد میں انتخابات محض ایک جزوی کام ہے ۔انتخابات عام افراد سے رابطے کا ایک ذریعہ ہے ۔جب معاشرے میں بدی کی قوتیں متحد اور منظم ہوں تو اس کے مقابلے پر نیکی اور خیر کی قوتوں کو بھی متحد اور منظم ہونا چاہیئے اس سے اصلاح معاشرہ کی تحریک اور جدوجہد کو تقویت ملتی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کا تقابل کسی اور جماعت یا کسی اور مذہبی یا سیاسی گروہ سے نہیں کیا جاسکتا ۔جماعت اسلامی کا مقصد اور نصب العین حکومتہ الہیہ کے قیام کو یقینی بنانا ہے اور ہم یہ جدوجہد جاری رکھیں گے ۔منعم ظفر خان نے کہاکہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کے اندر تحرک اور حوصلہ موجود ہے ، ہمارا مطمع نظر ہمارا نصب العین اور مقصد ہے جو جماعت اسلامی کے قیام کے وقت ہی طے کردیا تھا ۔انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کے کارکنوں اور ذمہ داران نے نے حالیہ دنوں میں پے در پے مہمات اور مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیا اور اپنی بہترین صلاحیتیں اور توانائیاں لگائیں اور اپنا بھرپور کردار ادا کیا جس پر وہ مبارکباد اور تحسین کے مستحق ہیں ۔