خیبر پختونخوا میں سات سال میں سوا سو سے زائد ٹرانس جینڈر افراد قتل

DW ڈی ڈبلیو اتوار 12 مئی 2024 19:40

خیبر پختونخوا میں سات سال میں سوا سو سے زائد ٹرانس جینڈر افراد قتل

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2024ء) خیبر پختونخوا میں حالیہ برسوں میں قتل کر دیے جانے والے ٹرانس جینڈر افراد کے قاتلوں میں سے شاید ہی کوئی گرفتار کیے جا سکے ہوں۔ گزشتہ سات برسوں میں اس صوبے میں 128 ٹرانس جینڈر شہری قتل کر دیے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ پشاور میں ایسے تین افراد معذور بھی ہو گئے۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے علاوہ خود اپنے ہی خاندان کے ارکان کے ہاتھوں قتل ہو جانے کے خوف سے سینکڑوں ٹرانس جینڈر افراد نے پشاور میں پناہ لے رکھی ہے۔

تاہم پشاور بھی ان کے لیے کوئی محفوظ شہر نہیں۔ ان پر مسلسل حملے کیے جاتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں ٹرانس جینڈر افراد کی پہلی مسجد

سال رواں کے دوران اب تک سات ٹرانس جینڈر شہری قتل کیے جا چکے ہیں تاہم قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ایسے چند مقامی شہری تو اپنی جانیں بچانے کے لیے یورپ یا دبئی شفٹ ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈر شہری خود کو صرف غیر محفوظ ہی تصور نہیں کرتے بلکہ انہیں رہائش، صحت، تعلیم اور روزگار کی تلاش کے سلسلے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پشاور میں صوبائی حکومت نے کئی بار انہیں تحفظ کے ساتھ ساتھ صحت اور روزگار کی سہولیات کی فراہمی کے اعلانات تو کیے لیکن ان اعلانات کو آج تک عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔

ٹرانس جینڈر افراد کی تنظیمیں

صوبائی دارالحکومت پشاور میں اس وقت ٹرانس جینڈر شہریوں کی فلاح و بہبود کی دعوے دار چار تنظیمیں کام کر رہی ہیں مگر دھڑے بندیوں کے باعث ایسے افراد کے مسائل کو بخوبی اجاگر نہیں کیا جا سکا اور ان کے مسائل روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ پشاور میں ایسی ہی ایک فلاحی تنظیم کی سربراہ فرزانہ اعوان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں بتایا، ''پشاور میں ساڑھے پانچ ہزار ٹرانس جینڈر افراد ہیں۔

ان میں مقامی کے علاوہ دیگر اضلاع سے آنے والے بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر صوبے بھر میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد 70 ہزار اور 75ہزار کے درمیان ہے۔‘‘

نیپال میں ہم جنس پسند افراد کی شادی کی قانونی منظوری

فرزانہ اعوان کا کہنا تھا کہ صوبے میں محض قریب 20 فیصد ٹرانس جینڈر افراد کے پاس شناختی کارڈ ہیں اور کسی بھی حکومتی فلاحی اسکیم سے صرف یہی چھوٹی سے تعداد فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

جب ڈی ڈبلیو نے ان سے ٹرانس جینڈر افراد کی بہبود کے لیے ماضی میں کیے گئے حکومتی اعلانات پر عمل درآمد کے حوالے سے سوال کیا، تو فرزانہ اعوان کا کہنا تھا، ''یہ اعلانات بس اعلانات ہی ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ایسے کسی شہری کی موت کے بعد اسے دفنانے کا ہوتا ہے۔ اس کی تدفین کے لیے کوئی بھی جگہ بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں ہر ضلع میں دو دو کنال زمین ٹرانس جینڈر افراد کے قبرستانوں کے لیے مہیا کرنے کا وعدہ کیا۔

اس پر بھی تاحال عمل درآمد نہیں ہوا۔‘‘

معاشرے کے مرکزی دھارے میں شمولیت کی جدوجہد

ٹرانس جینڈر افراد کو معاشرتی زندگی کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی جدوجہد میں اب تک بعض سیاسی جماعتوں نے اہم قدم اٹھائے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے حال ہی میں اپنے انٹرا پارٹی الیکشن کے دوران ڈاکٹر مہرب معیز اعوان کو ٹرانس جینڈر شہریوں کے حقوق کے لیے سیکرٹری منتخب کیا۔

اے آئی کے ذریعے ٹرانس جینڈر کے حوالے سے رویے کو بدلا جا سکتا ہے؟

ڈی ڈبلیوں نے ڈاکٹر مہرب معیز اعوان کے ساتھ بھی گفتگو کی، جس میں ان کا کہنا تھا، ''ٹرانس جینڈر شہریوں کو قومی زندگی کے مرکزی دھارے میں لانا صرف کسی ایک جماعت یا تنظیم کا کام نہیں۔ میں اپنی پارٹی کے پلٹ فارم سے دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے مل کر اس مقصد کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کروں گا۔

‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف پرتشدد کارروائیاں صوبے خیبر پختونخوا کی بدنامی کا باعث ہیں، ''میری کوشش ہے کہ ضلعی سطح پر ایسے شہریوں کو متحد کر سکوں اور انہیں تنظیمی سطح پر فعال بنا سکوں تاکہ ان کے حقوق کے لیے مؤثر طور پر آواز اٹھائی جا سکے۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے اس ''صوبے میں آج تک مجموعی طور پر 800 سے زائد ٹرانس جینڈر افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔

‘‘

پاکستانی ٹرانس جینڈر شہریوں کو شناختی کارڈوں کا اجرا بحال

خیبر پختونخوا میں ایسے شہریوں کے بارے میں کیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صوبائی وزیر اعلیٰ ہدایت دے چکے ہیں کہ ٹرانس جینڈر افراد کے علاج کے لیے صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں علیحدہ وارڈز مختص کیے جائیں۔ اس کے علاوہ ایسے شہریوں کی قانونی مدد کے لیے کئی غیر سرکاری تنظیمیں اور وکلاء بلامعاوضہ اپنی خدمات بھی پیش کرتے ہیں۔

لیگل سپورٹ نیٹ ورک کے ذریعے قانونی مدد

خیبر پختونخوا میں لیگل سپورٹ نیٹ ورک نامی تنظیم بھی ٹرانس جینڈر شہریوں کی مدد کے لیے کافی فعال ہے۔ اس نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والی ماہر قانون شہوانہ ایڈووکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ٹرانس جینڈر افراد کو قانونی مدد فراہم کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت کے پاس قومی شناختی کارڈ تک نہیں ہوتے۔

ان پر مسلح حملوں یا انہیں ہراساں کیے جانے کے واقعات میں ہم ان کی قانونی مدد تو کرتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پولیس ان کی شکایت پر مقدمے کے اندراج کے لیے ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی۔ کسی ٹرانس جینڈر شہری پر کوئی مسلح حملہ ہو یا اسے قتل بھی کر دیا جائے، تو پولیس ایف آئی آر 'نامعلوم افراد‘ کے خلاف ہی درج کرتی ہے۔‘‘

جرمن جیلیں ٹرانس جینڈر قیدیوں کا کیا کرتی ہیں؟

شہوانہ ایڈووکیٹ نے بھی کہا کہ حکومت ٹرانس جینڈر شہریوں کی فلاح و بہبود سے متعلق جو اعلانات کرتی ہے، وہ ''محض دکھاوے کی باتیں‘‘ ہی ثابت ہوتے ہیں۔

، ''حکومت نے ان کے علاج کے لیے بڑے ہسپتال میں الگ وارڈ تو بنا دیا، لیکن ڈاکٹر ایسے مریضوں کو وہ توجہ نہیں دیتے جو دینا چاہیے۔ حالت یہ ہے کہ ہر ماہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ارکان پر پانچ چھ حملے ہو رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی نمائندہ تنظیموں کے مطابق صوبے خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈر شہریوں کی تعداد 50 ہزار کے قریب ہے۔

افغان ٹرانس جینڈر باشندے

پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان سے بھی کافی تعداد میں ایسے افراد پاکستان پہنچے ہیں اور ان کی اکثریت خیبر پختونخوا بالخصوص پشاور ہی میں رہائش پذیر ہے۔

ایسے افغان باشندوں نے پشاور ہائی کورٹ میں یہ درخواست بھی دائر کر رکھی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں ان کی جانیں خطرے میں ہیں، لہٰذا انہیں پاکستان میں رہائش کی اجازت دی جائے۔

یورپ میں ہم جنس پسندوں کے حقوق، پولینڈ سب سے پیچھے

پشاور ہائی کورٹ میں موجود افغانستان کے صوبہ لغمان سے تعلق رکھنے والی ٹرانس جینڈر خاتون مہک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''افغانستان میں بے پناہ مشکلات تھیں۔ لیکن یہاں آکر بھی ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ ہم گھر سے باہر نہیں نکل سکتے، کوئی روزگار بھی نہیں جس کی وجہ سے بے پناہ مالی مسائل ہیں۔

ہمیں پولیس کی جانب سے بھی تنگ کیا جا رہا ہے۔ افغان ہونے کی وجہ سے ہمیں پاکستان میں دو گنا مشکلات ہیں جبکہ افغانستان میں تو ہماری زندگی ہی داؤ پر لگی تھی۔‘‘

خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے حفاظتی اقدامات

پشاور پولیس نے ٹرانس جینڈر افراد کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنائی ہے، جس کا پہلا اجلاس کچھ عرصہ قبل پشاور کے علاقے گل بہار کے پولیس سٹیشن میں منعقد ہوا تھا۔

اس اجلاس میں پولیس کے سربراہ نے مقامی ٹرانس جینڈر باشندوں کو یقین دلاتے ہوئے کہا تھا، ''ٹرانس جینڈر افراد بھی پاکستان کے برابر کے شہری ہیں۔ انہیں جو بھی ہراساں کرے گا، اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔‘‘

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کے لیے خصوصی ہاٹ لائن متعارف

اس موقع پر ایس ایس پی کاشف عباسی نے یقین دلایا تھا کہ ٹرانس جینڈر افراد کے مسائل حل کرنے کے لیے باہمی مشاورت سے بتدریج اقدامات کیے جائیں گے۔

کسی کو یہ اجازت نہیں دئی جائے گی کہ ایسے شہریوں کو ہراساں کیا جائے۔‘‘

حکومت اور حکومتی اداروں کی بار بار کی یقین دہانیوں کے باوجود خیبر پختونخوا میں ٹرانس جینڈر افراد پر حملوں میں کمی نہیں آئی اور اس سال بھی اب تک متعدد ٹرانس جینڈر باشندے قتل اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔