سپریم کورٹ نے تھرکول منصوبے میں گیسی فکیشن سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی تحقیقات نیب کے سپرد کردیں

جمعرات 18 اکتوبر 2018 22:17

سپریم کورٹ نے تھرکول منصوبے میں گیسی فکیشن سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 اکتوبر2018ء) سپریم کورٹ نے تھرکول منصوبے میں گیسی فکیشن سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی تحقیقات نیب کے سپرد کردیں۔جمعرات کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تھرکول پاور پراجیکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔. منصوبے کے چیئرمین ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے آڈیٹر جنرل کو تھرکول منصوبے کا فارنزک آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے 15 دن کے اندر رپورٹ طلب کرلی جبکہ چیف سیکرٹری سندھ کو منصوبے سے متعلق تمام اشیاء قبضے میں لینے کی ہدایت کی ۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا دیکھا جائے اس منصوبے میں کرپشن تو نہیں ہوئی۔ اس موقع پرعدالتی معاون سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ واضح نہیں ہے، 30 سال تک 10 ہزار میگاواٹ بجلی کا کہا گیا تھا، ماہرین کے مطابق منصوبے سے زیر زمین پانی کم ہوگا اور اس سے ماحولیات پر بھی منفی اثر پڑے گا۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے تھر کول پیداواری منصوبے میں بدعنوانی پر کمیٹی بھی تشکیل دیدی ہے ۔

سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ ایک کمیٹی نے کہا ہے کہ یہ ناکام منصوبہ ہے مزید رقم نہیں دینی چاہیئے، ثمر مبارک کے منصوبے کی منظوری دینے والوں کو بھی اس حوالے سے دیکھنا چاہیے تھا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'پہلی بار احساس ہوا کہ ارب کیا ہوتا ہے، اربوں روپے درخت کے پتوں کی طرح اڑا دیے گئے، 3.8 ملین تو اس منصوبے پر لگ چکے ہیں، اس کا کون ذمہ دار ہے اور کیا ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے یہ پیسے دینے ہیں۔

چیف جسٹس نے عدالتی معاون سے استفسار کیا کہاں گئے ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے وہ دعوے، کیا اس معاملے کو ایف آئی اے کو نہ بھیج دیں، یا اس کی نئے سرے سے تحقیقات کرائی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبے پر بہت شور مچایا گیا کہ میں نے ایسا کام کردیا جو آج تک کسی سائنسدان نے نہیں کیا، 100 میگا واٹ منصوبے سے 3 میگا واٹ بجلی بھی نہیں آرہی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان غریب ملک ہے کیا اس کا پیسہ ایسے ضائع کرنا ہے، تھرکول گیس سے بجلی بنانے کے دو طریقے ہیں، ایک کوئلہ نکال کر بجلی پیدا کی جاتی ہے، دوسرا وہ جو بندر گاہوں پر پلانٹ لگائے ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر اصغر حیدر نے عدالت میں منصوبے سے متعلق رپورٹ پیش کی اور کہا کہ انجینئیرز کے مطابق زیر زمین گیسی فیکیشن سے بجلی بنانا ممکن نہیں۔عدالتی معاونین سلمان اکرم راجا اور شہزاد الہی نے بھی اپنی تجاویز عدالت میں جمع کرائیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی اور سندھ حکومت کی اس بار ے میں کیا پوزیشن ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ اس منصوبے کا سارا پیسہ وفاقی حکومت نے دیا جبکہ زمین سندھ حکومت کی ہے۔

عدالت میں موجودہ منصوبے کے چیئرمین ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ اس منصوبے میں کوئی ماحولیاتی آلودگی نہیں ہوئی، آسٹریلیا کی ایک کمپنی بھی زیر زمین گیسی فکیشن کر رہی تھی، وکیل اس منصوبے کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹر ثمر سے مکالمے کے دوران کہا کہ مجھے پتا تھا آپ یہی کہیں گے، جب ثمر مبارک نے دعوے کیے تو رومانس ہوگیا، کہا گیا کہ مفت بجلی ملے گی لیکن خزانے کو 4 ارب کا نقصان کردیا گیا۔ عدالت نے منصوبے کی تحقیقات نیب کے سپرد کردیں۔