امت مسلمہ اور نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ

مسلمان اللہ کی رسّی کو تھام کر اور نبی آخرالزماںﷺ کی سیرت پر عمل کرکے ہی فلاح پاسکتے ہیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 21 نومبر 2018 09:49

امت مسلمہ اور نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 نومبر۔2018ء) ربیع الاول کا مہینہ پاکستانی قوم سمیت ملت اسلامیہ کے لوگوں کے لئے خوشی وانبساط کی وہ خاص کیفیت لےکر آتا ہے جوخالق کائنات کی طرف سے باعث تخلیق کائنات قرار دی گئی ہستی کی دنیا میں آمد کے تصور سے وابستہ ہے.

(جاری ہے)

اس ماہ مبارک کی پرنور ساعتیں اس امر پر غوروخوض کا موقع فراہم کرتی ہیں کہ پروردگار عالم نے اپنے محبوب بندے اور آخری نبیﷺ کی پہچان کرانے کے لئے کیسے کیسے انتظامات فرمائے‘ قرآن مجید کی سورئہ الم نشرح میںحق تعالیٰ جب حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں”وَرفَعنا لک ذکرک (ترجمہ -اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا)“تو یہ بات محض اس ایک کتاب میں مقام خاتم النبیینﷺ ظاہر کرنے تک محدود نہیں بلکہ قبل ازیں مختلف زمانوں، اقوام اور علاقوں میں جتنے انبیاءعلیہ اسلام ورسل بھیجے گئے ان کی تعلیمات اور الہامی کتابوں کے ذریعے بھی بنی نوع آدم کو آگاہ کیا جاتا رہا کہ ان تک پہنچنے والی تعلیمات کی تکمیل اس نبیﷺکی آمد پر ہو گی جس کا نور کائنات کی تخلیق سے پہلے پیدا کیا گیا مگر جس کی دنیا میں آمد انبیاءعلیہ اسلام ورسل کے سلسلے کے آخر میں ہو گی‘یوں حق تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے رسولوں کی گواہی کے ذریعہ آخری نبیﷺ کی بشارت اور خاتم النبیینﷺ کے ذریعہ ان انبیائے سابقین کی تصدیق کا اہتمام کیا جنہوں نے ہادی اعظم کی بشارت دی.

خاتم المرسلینﷺ کے ذکر کی بلندی کا عالم یہ کہ اللہ اور اس کے فرشتے ان پر درود بھیج رہے ہیں اور کتاب اللہ کے ذریعہ تمام صاحبان ایمان کو بھی سعادت درود و سلام کی طرف بلایا جا رہا ہے‘ جس انسان کامل کا ذکر بلند کیا گیا، حیات ظاہری میں اس کے بچپن اور جوانی کا مشاہدہ کرنے والوں نے اس کی پاکیزہ زندگی، صداقت اور امانت کی گواہی دی. اس کی مکی زندگی دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ مصائب کی انتہا میں بھی مشن کی تکمیل کیلئے کیسے ثابت قدم رہا جاسکتا ہے‘ مدنی زندگی دیکھئے تو فلاحی مملکت کا خواب دیکھنے والے حکمراں ہوں یا اپنے اپنے میدانوں میں کامیابی حاصل کرنے کے متمنی دوسرے افراد، سب کی رہنمائی کا سامان نظر آتا ہے.

ریاست مدینہ کو دیکھئے تو مہاجرین کی آبادکاری اور روزگار کی فراہمی کا مسئلہ ہو یا صدیوں سے برسرپیکار قبیلوں کو صلح کے راستے پر لانے کا مرحلہ، قبائل کو مرکزی طاقت کی لڑی میں پرونے کا میثاق ہو یا اردگرد کے قبائل سے معاہدوں کے ذریعے حفاظتی حصار بنانے کی ضرورت‘ جنگ اور امن کے قوانین ہوں یا حقوق انسانی کا میدان‘ سب ہی معاملات میں رہنمائی ملتی ہے.

امور مملکت چلانے کے انداز نشاندہی کررہے ہیں کہ مسلم حکمرانوں کا طرز زندگی قیصریت اور کسرائیت پر مبنی نہیں، انتہائے سادگی کا مرقع ہونا چاہئے‘زندگی کے ہر لمحے میں مسلم حکمرانوں، اکابرین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو خطبہ حج الوداع کو حرز جاں بناتے ہوئے یہ الفاظ بطور خاص یاد رکھنے چاہئیں کہ ”تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اس پر تم قائم رہے تو کبھی گمراہ نہ ہوسکو گے‘ وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت“.

آج امت مسلمہ کو جن چیلنجوں کا سامنا ہے، وہ اپنی تمام تر سنگینی کے باوجود اس چیلنج کی گرد کو بھی نہیں پہنچتے جو ابتدائے اسلام میں درپیش تھا. تو کیوں نہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے مسلم حکمراں اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لیں‘ اپنے باہمی اختلافات، داخلی شورشوں اور علاقائی تنازعات کے خاتمے کیلئے ثالثی، مصالحت اور باہمی رابطوں کا وہ راستہ اختیار کریں جس کے بعض اشارے مل بھی رہے ہیں. تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) سمیت اپنی تنظیموں کو موثر بنائیں‘ مختلف میدانوں میں تعاون بڑھائیں اور سورہ الم نشرح کے اس پیغام کو سمجھیں جس میں اللہ نے اپنے رسولﷺ کا ذکر بلند کرنے کی نوید کے علاوہ دوبار” مشکل کے ساتھ آسانی“ کی موجودگی کی بشارت دی ہے.

متعلقہ عنوان :