تعلیم کے شعبہ کو آگے لے جانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں عدم برداشت کا ماحول پیدا کیا جائے

ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے مگر اساتذہ اور طالب علموں میں اضافہ نہیں ہورہا، ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے وہ تعلیم زیادہ بہتر ہے جس میں بچہ خود سیکھے آرٹس کونسل کراچی میں گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس میں ’’معیاری تعلیم سب کے لئے ‘‘کے موضوع پر منعقدہ سیمینار ماہرین تعلیم کا اظہار خیال

اتوار 25 نومبر 2018 19:30

D کراچی۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 نومبر2018ء) ملک کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے معروف اساتذہ اور شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہرین نے کہا ہے کہ قومی ترجیحات کی فہرست میں تعلیم ساتویں نمبر پر ہے، تعلیم کے شعبہ کو آگے لے جانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں عدم برداشت کا ماحول پیدا کیا جائے،ملک کی آبادی میں تو اضافہ ہورہا ہے مگر اساتذہ اور طالب علموں میں اضافہ نہیں ہورہا، تعلیم پر ملک بھر کے صوبوں سے درست ڈیٹا جمع کرنا ضروری ہے، تعلیم کا شعبہ اگر زوال پذیری کا شکار ہے تو اس کی وجہ اوپری سطح پر موجود خرابیاں ہیں، چند اینکرز تعلیم کے معاملے پر بھی پالیسی میکرز کے طور پر کام کررہے ہیں، ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے، وہ تعلیم زیادہ بہتر ہے جس میں بچہ خود سیکھے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے چوتھے دن پہلے اجلاس کے موقع پر ’’معیاری تعلیم سب کے لئے ‘‘کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے گفتگو کرتے ہوئے ماہرین نے کیا، جن میں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم پروفیسر اجمل خان، ڈاکٹر انوار احمد،قاسم بگھیو، پروفیسر ہارون رشید، صادقہ صلاح الدین، امینہ سید، غازی صلاح الدین اور پروفیسر اعجاز احمد فاروقی شامل تھے، مذکورہ اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر سید جعفر احمد نے انجام دیئے، کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل خان نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ تعلیم سیاسی معاملہ ہے اس کا فیصلہ بڑے ایوانوں میں ہوتا ہے، چین میں 1975ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ تعلیم کو آگے بڑھانا ہے لہٰذا اس فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور چین میں تعلیم سب سے اوپر کی سطح پر آگئی ہے، انہوں نے کہاکہ یہ ضروری ہے کہ اوپری سطح پر یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ ہمیں تعلیم کو آگے لے کر جانا ہے یا نہیں، جب فیصلے اساتذہ سے لے کر کہیں اور دے دیئے جائیں تو تعلیم کا معیار گرتا ہے، جامعہ کراچی کو آگے ترقی کی طرف لے جانا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بھی اگر اوپر ہوجائے تو معاملہ حل ہوسکتا ہے، بات صرف فیصلہ کرنے کی ہے، ہم میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں اور ہم ہی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ایک پالیسی مرتب کردی جائے، جس میں تعلیم کو نمایاں رکھا جائے اور پھر اس پر کام کرنے کے لئے تعلیم کے شعبہ سے وابستہ افراد کو آزادی دے دی جائے پھر دیکھئے تعلیم کا شعبہ کہاں سے کہاں پہنچتا ہے، انہوں نے کہاکہ ملک میں جامعات کا جال پھیلا ہے ابتدائی ادوار میں ملک میں ڈھائی ہزار جامعات تھیں آج 40ہزار جامعات ہیں، انہوں نے کہاکہ لوگ کام کرنا چاہتے ہیں مگر مواقع نہیں ہیں جامعہ میں کبھی کوئی سسٹم کام نہیں کرتا تو کبھی کوئی سسٹم کام نہیں کرتا، اس طرح کام کرنے والے کے تسلسل میں فرق آجاتا ہے اور کام کا رزلٹ صحیح نہیں آپاتا، ورلڈ ریکنگ میں ہمیں اوپر جانے کے لئے ایک سسٹم چاہئے جو ہمارے پاس نہیں ہے ، اگر ہمیں وہ تمام ٹولز فراہم کردیئے جائیں جس کی ضرورت ہے تو دیکھیں ہماری جامعات دُنیا کی بہترین جامعات میں اوپر آسکتی ہیں، جامعہ کراچی کے سابق چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہاکہ سرکاری تعلیمی پالیسیاں بنتی رہی ہیں، جب بھی حکومتیں بدلتی ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ قومی اُمنگوں کے مطابق پالیسی مرتب کریں گے، بعد ازاں یہ پالیسیاں شیلف میں رکھی رہ جاتی تھیں، کیونکہ جہاں بھی اور جب بھی ان پالیسیوں کے نفاذ کا معاملہ آتا وہاں خاموشی چھا جاتی تھی اس معاملے میں کبھی بھی میں مثبت پیش رفت نظر نہیں آئی، انہوں نے کہاکہ آج کے پینل میں شریک ہر ماہر تعلیم یہی کہہ رہا ہے کہ تعلیم کے شعبہ کو اوپر جانا چاہئے مگر یہ کیسے ممکن ہے، ہاں اگر آج کی اس تقریب میں پلاننگ کمیشن کے سربراہ موجود ہوتے، تعلیم کے وزیر ہوتے، تعلیم کے سیکریٹری ہوتے، یا وہ لوگ ہوتے جو منصوبہ بندی کرنے کے ذمہ دار ہیں تو شاید یہ ممکن ہوتا کہ ہم کوئی مثبت نتیجے پر پہنچ سکتے اور بہتر ڈائریکشن میں تعلیمی شعبہ پر کام کرسکتے، انہوں نے کہاکہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ قومی ترجیحات کی فہرست میں تعلیم ساتویں نمبر پر ہے تو پھر وہی کچھ ہوگا جو اب تعلیم کے ساتھ ہورہا ہے، انہوں نے کہاکہ ملائیشیا میں ماضی میں تعلیم کا شعبہ بہت ابتری کا شکار تھا اور صورتحال بہت خراب تھی مگر مہاتیر محمد نے طے کیا کہ تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی جائے گی ، لہٰذا ایک بار فیصلہ ہوا اور پھر اس پرعملدرآمد بھی ہوا اور آج ملائیشیا تعلیم کے شعبہ میں آگے نکل چکا ہے، قابلِ غور بات یہ ہے کہ ملائیشیا نے تعلیم کے شعبہ پر اپنی آمدنی کا 12فیصد خرچ کیا ہے جبکہ ہمارے ملک میں 2.6 فیصد خرچ ہوا اور اب ہم 2.5فیصد پر کھڑے ہوئے ہیں، انہوں نے کہاکہ ہمارے مسائل زیادہ اور وسائل کم ہوتے جارہے ہیں، پہلے سے موجود جامعات کی گرانٹ کم کردی جاتی ہے اور نئی یونیورسٹیاں کھولی جارہی ہیں، ہو سکتا ہے شاید یہ کوئی سیاسی عمل ہو، انہوں نے کہاکہ ایک اطلاع کے مطابق دوہزار اسکول سندھ میں بند ہورہے ہیں تو پھر ہم کس تعلیم کی بات کررہے ہیں، ضرورت کے حساب سے اسکول نہیں ہیں اور جو ہیں وہ بند ہورہے ہیں، ذکریا یونیورسٹی بہاولپور کے سابق ڈین اور ماہر تعلیم ڈاکٹر انوار احمد نے کہاکہ تعلیم کا شعبہ اپنی قیادت سے پہچانا جاتا ہے کسی بھی اسکول، کالج یا یونیورسٹی کا پرنسپل اپنے کام سے کتنا مخلص ہے اس کے بارے میں وہاں کے لوگ جانتے ہیں کیونکہ معاشرہ سمجھ دار ہے، انہوں نے کہاکہ جب نصاب بنانے والی کمیٹیوں میں ایسے لوگ شامل ہوجائیں جو اپنے بڑوں کو خوش کرنے کے لئے خود ان سے پوچھیں کہ حضور آپ کس طرح کا نصاب چاہتے ہیں تو پھر تعلیم کا اللہ ہی حافظ ہے، انہوں نے کہاکہ مجھے ریٹائرڈ ہوئے 11سال ہوگئے ہیں میں ملتان کے اسکول سے پڑھا ہوا ہوں مگر اس زمانے میں پڑھانے والے اساتذہ بھی پڑھانے سے محبت کرتے تھے، بدقسمتی سے اب اساتذہ پر بھی زوال آیا ہے، پروفیسر ہارون رشید نے کہاکہ تعلیم کی تمام کوتاہیوں کو ہم سب کو اون کرنا چاہئے کیونکہ ہم سب ہی اس کا حصہ ہیں، ساڑھے چار کروڑ بچے جو پڑھ رہے ہیں ان میں صرف 15لاکھ بچے ہی ہائر ایجوکیشن تک پہنچتے ہیں باقی سب بیچ میں سے ہی غائب ہوجاتے ہیں، سندھ میں سات تعلیمی بورڈز ہیں اب سنا ہے کہ ایک صاحب کو نیا بورڈ بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے اور وہ صاحب خود کرپشن میں ملوث ہیں، ایک زمانہ تھا کہ پشاور بورڈ، پنڈی بورڈ اور بلوچستان بورڈ سے ہمارے پاس پیپر چھپنے کے لئے آتا تھا کیونکہ ہمارا نظام اتنا محفوظ تھا اب صورتحال یہ ہے کہ جن طالب علموں کا انرولمنٹ وہاں نہیں ہو پاتا وہ یہاں آکر امتحان بھی دیتے ہیں اور ڈگری بھی لے لیتے ہیں، نائیجیری اور چاڈ کے بعد ہم دُنیا میں وہ ملک ہیں جو تعلیم پر سب سے کم بجٹ خرچ کررہا ہے، ان حالات میں بھلا کس معیاری تعلیم کی بات کی جاسکتی ہے، تعلیم کے 1.58فیصد بجٹ میں کرپشن بہت ہے، 2014ء میں تعلیم کا بجٹ 114ارب روپے تھا جس میں 90ارب روپے تنخواہوں میں جاتے تھے، 6سال بعد 134ارب روپے بجٹ ہوا اور ترقیاتی بجٹ میں 70فیصد دیا جاتا تھا جو کرپشن کی نذر ہوجاتا تھا، انہوں نے کہاکہ ہمارے ملک کے دور افتادہ علاقوں میں خواتین کی تعلیم کا بہت بُرا حال ہے انہیں تعلیم تک رسائی کے لئے کوئی بھی سہولت اور آسانی فراہم نہیں ہے، غازی صلاح الدین نے کہاکہ اس ملک میں تعلیم کی بات کرنا جہاں ملالہ جیسی بچی ناپسندیدہ ہو، کہا جاتا ہے کہ یہ ایک سازش تھی کہ بچیوں کو تعلیم نہ مل سکے، میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں اصل مسئلہ عدم برداشت کا ہے اگر اس سے چھٹکارا نہ پایا گیا تو اس ملک میں تعلیم کا شعبہ آگے نہیں بڑھ سکتا، ہمیں ایسے ماحول کی فراہمی کے لئے کام کرنا ہوگا جہاں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ اور ایک دوسرے سے مکالمے کی اجازت ہو، صادقہ صلاح الدین نے کہاکہ میں گراس روٹ سطح پر کام کرتی ہوں اور سندھ کے شہروں میں اسکولوں کی تعلیم کے حوالے سے وہاں کے طالب علموں سے میرا مسلسل رابطہ رہتا ہے، گائوں اوردیہات میں پرائیویٹ اسکول نہیں ہوتے ، گائوں کی کہانی تو یہ ہے کہ حکومت سندھ کے 42ہزار اسکول ہیں جن میں سے 38ہزار پرائمری ہیں، اس کے بعد 4ہزار اسکول وہ بچتے ہیں جو چھٹی یا اس سے آگے جماعت تک ہیں، انہوں نے کہاکہ سندھ کے لوگ کھلے ذہن کے ہیں وہاں کے والدین اپنے بچوں کو مخلوط تعلیم سے منع تو نہیں کرتے مگر ان کی ایک خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بچیوں کو اسکول میں پڑھانے کے لئے خاتون ٹیچر بھی لازمی ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے اسکولوں میں خاتون ٹیچر کا دور دور تک تصور نہیں ہے،سندھ میں ایک لاکھ ٹیچرز میں سے 70فیصد ٹیچرز میل ہیں جبکہ 30فیصد فیمیل ہیں، وہ بھی ان علاقوں تک جو شہروں کے قریب ہیں، گائوں گوٹھ میں کوئی خاتون ٹیچر نہیں ہوتی، انہوں نے کہاکہ ملک کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا ہے مگر اساتذہ کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، تعلیم کے معاملے میں دُنیا کے سب ہی ملک ہم سے آگے نکل چکے ہیں ہاں البتہ ہم یمن سے تعلیم میں بہتر ہیں، انہوں نے کہاکہ خواتین کی تعلیم ہر صورت ضروری ہے اگر خواتین کو تعلیم یافتہ نہیں بنایا گیا تو پھر اقوام ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں، قاسم بگھیو نے کہاکہ ہمارے پاس پلاننگ کی کمی ہے، نہ ہی ایجوکیشن پلاننگ ہے نہ ہی لینگیویج پلاننگ، جس کی جو مرضی ہے وہ کررہا ہے، آج سے 70سال پہلے انگریز کے زمانے میں تعلیم کا نظام بہتر تھا مگر اب نہیں ہے، منصوبہ بندی کرنے والوں کا کام بھی چند اینکرز نے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔

امینہ سید نے کہاکہ جی ڈی پی کا 2.3فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے مگر یہ سرکاری اسکولوں کا خرچ ہے، سرکاری اسکول، پرائیویٹ اسکول اور ٹیوشن کا بجٹ جمع کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ ہمارے دفاعی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے جو والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کررہے ہیں ،انہوں نے کہاکہ ہمارے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ بچوں کو جس طرح پڑھا رہے ہیں اس سے بچے تعلیم کے قریب نہیں بلکہ دور جارہے ہیں، دورانِ تعلیم بچوں پر تشدد بھی کیا جارہا ہے، بہت سارے اسکولوں کی چاردیواری نہیں ہوتی، ہمیں ایک ایسا ماحول فراہم کرنا ہوگا جس میں بچوں کو زبردستی پڑھانے کے بجائے وہ حالات فراہم کئے جائیں جس میں بچہ پڑھنے میں خود دلچسپی لے اور خود سے سیکھے، انہوں نے کہاکہ ڈیجٹیل لرننگ کو ہمیں اپنانا چاہئے اس سے ہمیں بہت فائدہ ہوگا، مگر اس کے لئے آج کے تعلیم دینے کے انداز میں تبدیلیاں بھی لانا ہوں گی، ہمارے امتحانات ٹیکسٹ بُک پر انحصار کرتے ہیں یہ درست نہیں ہے امتحانات اسکلز پر ہونا چاہئے کہ بچہ کیا سوچتا ہے اور اس میں کیا صلاحیت ہے۔

پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے کہاکہ جب تمام متعلقہ ادارے اور منصوبہ ساز افراد یہ طے کرلیں کہ تعلیم کے شعبے کو آگے لے کر جانا ہے تو پھر تعلیم کا شعبہ آگے ہی جائے گا پیچھے کی طرف نہیں۔