پاکستان میں امریکا کی نجی فوج کے 90اہلکار مارے جاچکے ہیں‘بلیک واٹرز‘جی4اور دیگر کمپنیاں مقامی سیکورٹی کمپنیوں کے ساتھ مل کرکام کررہی ہیں-امریکی جریدے کا انکشاف

امریکا کی نجی سیکورٹی کی پاکستان میں موجودگی ریاست میں ایک ریاست ہے. ملک میں ایسے 62 ریٹائرڈ ملٹری افسران یہ کمپنیاں چلا رہے ہیں جنہیں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور بھی بعد میں رہا بھی کردیا گیا. آسٹریلوی صحافی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 8 دسمبر 2018 13:24

پاکستان میں امریکا کی نجی فوج کے 90اہلکار مارے جاچکے ہیں‘بلیک واٹرز‘جی4اور ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 08 دسمبر۔2018ء) امریکا کی جانب سے ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں امریکی کانٹریکٹر (نجی فوج)کی دنیا تاریک ہے. 2010 میں امریکا کی جانب سے ایک اعلان کیا گیا تھا کہ کسی بھی کانٹریکٹر کو 30 روز میں پاکستان اور افغانستان میں کسی بھی جگہ پر پہنچنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنا ہے.

(جاری ہے)

امریکا کے سب سے پرانے جریدے نے اس اعلان کو 2010 میں نمایاں کیا تھا جس میں نجی وار کنٹریٹر کی درخواستوں کا ذکر ہے جو امریکا کے فوجی سامان کو پاکستان کے حساس علاقوں سے گزار کر افغانستان پہنچانے سے متعلق تھی یہ نجی فوج سازوسامان کی نقل وحمل کے علاوہ امریکی ونیٹو تنصیبات کی حفاظت اور افغانستان میں اتحادی افواج کو فوجی مدد بھی فراہم کرتی ہے.

ان کانٹریکٹر کے ذمے جو کام تھے ان میں پاکستان اور افغانستان میں امریکی ساز و سامان کو لاحق خطرات سے متعلق انٹیلی جنس رپورٹ امریکی حکام کو فراہم کرنا تھا. ایک دلچسپی نوٹس بھی اس کا حصہ تھا جسے پاکستانی ذرائع ابلاغ نے مکمل طور پر نظر انداز کیا تھا جو کام کی شدت کو اس طرح وضع کرتا تھا کہ اوسطاً 5 ہزار درآمد شپمنٹ ہرماہ پاکستان سے گزرکر افغانستان جائیں گی، لیکن ان میں 5 سو برآمد شپمنٹ بھی ہوں گی برآمد شپمنٹس کی تفصیلات دستیاب ہیں نہ ہی آنے والے سازوسامان کی.

ان کانٹریکٹ کے شرائط و ضوابط سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اہلکار ان آپریشنز میں براہِ راست شامل تھے، تاہم امریکیوں نے اپنے امور انجام دینے کے لیے بڑی تعداد میں پاکستانیوں اور افغانیوں کی خدمات حاصل کیں. جریدے نے بتایا ہے کہ امریکا کے محکمہ دفاع میں رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں میں افغانستان کی کمپنی کا تعلق سی آئی اے کے سابق افسر سے ہے جبکہ اسے افغانستان کے سابق وزیرِ دفاع کا بیٹا چلاتا ہے جبکہ پاکستانی فرم کے تانے بانے بلیک واٹر سے ملتے ہیں جو پاکستان میں امریکا کی ایک نجی سیکورٹی کمپنی تھی.

امریکی میڈیا میں تو کانٹریکٹرز کے معاملات کو نمایاں کیا جاتا رہا، لیکن دنیا کی توجہ اس جانب تب مبذول ہوئی جب براﺅن یونیورسٹی کے کاسٹس آف وار پروجیکٹ کی جانب سے ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ گزشتہ 17 سال کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مارے جانے والے 65 ہزار پاکستانیوں میں سے 90 امریکی بھی شامل تھے جوکہ مبینہ طور پر اس نجی فوج کا حصہ تھے جنہیں ”کانٹریکٹرز“کہا جاتا ہے.

امریکی میڈیا میں پاکستان میں کام کرنے والے کانٹریکٹرز توجہ حاصل نہیں کرسکے کیونکہ افغانستان اور عراق میں مارے جانے والے امریکی کانٹریکٹرز کی تعداد کئی زیادہ تھی. براﺅن یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق 2001 سے اب تک 7 ہزار 8 سو 20 امریکی کانٹریکٹرز مارے جاچکے ہیں، جن میں 3 ہزار 9 سو 37 افغانستان میں اور 3 ہزار 7 سو 93 عراق میں جبکہ 90 پاکستان میں مارے گئے.

زیادہ تر پاکستانیوں کے لیے 90 بہت بڑا نمبر ہے جو انہیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کے علم میں آئے بغیر ہزاروں امریکی کانٹریکٹرز ان کے ملک میں کام کر رہے ہیں. 2010 میں جاری ہونے والے اعلان کے مطابق امریکا کو پاکستان میں اس کی فوج کی محدود موجودگی اور افغانستان میں فوج کی سرگرمیوں کی وجہ سے لاحق خطرات کے باعث نجی کانٹریکٹرز کی خدمات حاصل کی گئیں.

کانٹریکٹر کے کام کو اس طرح واضح کیا گیا کہ ایک کانٹریکٹر کو چوکنا رہنا ہے اور اسے ان طریقوں کی نشاندہی کرنی ہے جن کی مدد سے سامان کی ترسیل آسان بنائی جاسکے. امریکی کی جانب سے پاکستان میں امریکی کانٹریکٹرز کے اعداد و شمار سامنے نہیں آسکے، لیکن امریکا کی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے 2012 میں کانگریس کو بتایا تھا کہ تقریباً ایک لاکھ 37 ہزار امریکی کانٹریکٹرز عراق، افغانستان اور پاکستان میں موجود تھے.

سینٹ کام کے مطابق ان کانٹریکٹرز میں 40 ہزار ایک سو 10 امریکی، 50 ہزار 5 سو 60 مقامی جبکہ 46 ہزار 2 سو 31 ایسے کانٹریکٹر تھے جو نہ امریکی تھے اور نہ ہی مقامی ہیں ایک امریکی صحافی کے مطابق ان میں جرائم پیشہ اور مختلف ممالک کی افواج سے بھاگے ہوئے سابق فوجی ہیں. امریکا کے محکمہ دفاع کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ اپنے عروج کے وقت (2008 سے 2011) کے درمیان عراق اور افغانستان میں کانٹریکٹرز کل فورس کا 52 فیصد تھے.

پاکستان کی صورتحال پر اپریل 2012 میں ایک صحافی انٹونی لیووینسٹین نے ایک آسٹریلوی اشاعت میں لکھا تھا کہ پاکستان میں امریکا کی نجی سیکورٹی ریاست میں ایک ریاست ہے.انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ایسے 62 ریٹائرڈ ملٹری افسران یہ کمپنیاں چلا رہے ہیں جنہیں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور بھی بعد میں رہا بھی کردیا گیا. ان کا اپنی اشاعت میں یہ بھی کہنا تھا کہ 2012 میں جن کمپنیوں کے ناموں کی فہرست سامنے آئی ہے ان میں مشہورِ زمانہ جی 4 ایس ہے جو پاکستان میں جی 4 ایس ویکن ہٹ پاکستان کے نام سے چل رہی ہے.صحافی کے مطابق جی 4 ایس ایک برطانوی سیکورٹی کمپنی ہے جس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سینکڑوں الزامات ہیں.

ایک نیوز ویب سائٹ فارن پالیسی کی جانب سے جنوری 2010 میں جاری ہونے والی رپورٹ میں ان نجی سیکورٹی کمپنیوں کے کام کرنے کے دور کے بارے میں بتایا گیا تھا. اس میں بتایا گیا کہ 2010 میں اقوام متحدہ کے ایک اہم سیکورٹی حکام گریگوری اسٹر جو امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سیکورٹی کے سابق سربراہ بھی ہیں نے پاکستان میں امریکی کی ان نجی سیکورٹی کمپنیوں کو بڑھانے کی وکالت کی تھی.

مذکورہ ویب سائٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے انہیں بڑھانے پر زور 2009 میں اقوام متحدہ کی رہائش گاہ پر طالبان کے حملے کے بعد تیز ہوگیا تھا جس میں اقوام متحدہ کے 5 ملازمین ہلاک ہوگئے تھے. رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جو کمپنیاں پاکستان میں سب سے زیادہ متحرک ہیں ان میں بلیک واٹر یا زی، ٹرپل کینوپی، ڈائن کورپس اور ایجس شامل ہیں، جنہوں نے اب مقامی شراکت داروں کی خدمات بھی حاصل کرلیں.