ملک میں دہشت گردی کی لہر کے پیش نظر فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا، گزشتہ تقریباً 20 سال سے ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ، 2008ء کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں بہت تیزی آئی، دہشت گردی کے واقعات میں دہشت گرد گرفتار بھی ہوتے تھے، ہمارا کرمنل جوڈیشل سسٹم (فوجداری نظام) دہشت گردی کے کیسز کو نمٹانے کے لیے موثر نہیں تھا جس کی وجہ سے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا

ْڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو

ہفتہ 19 جنوری 2019 01:10

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 جنوری2019ء) ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی لہر کے پیش نظر فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا، گزشتہ تقریباً 20 سال سے ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور 2008ء کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں بہت تیزی آئی، دہشت گردی کے واقعات میں دہشت گرد گرفتار بھی ہوتے تھے لیکن اس دوران ہمارا کرمنل جوڈیشل سسٹم (فوجداری نظام) دہشت گردی کے کیسز کو نمٹانے کے لیے موثر نہیں تھا جس کی وجہ سے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام ’’دنیا کامران خان کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ اے پی ایس کے واقعے کے بعد ایک قومی اتفاق رائے قائم ہوا کہ ہم نے کیسے ان دہشت گردوں سے نمٹنا ہے اور کیسے انہیں سزائیں بھی دینی ہیں تو پھر ایک قومی سیاسی اتفاق رائے سے کل جماعتی کانفرنس کے بعد پارلیمنٹ کے ذریعے فیصلہ ہوا کہ فوجی عدالتیں بننی چاہیئں اور ان دہشت گردوں کو سزائے موت بھی دی جانی چاہیئے اور پھر 21ویں ترمیم کے تحت پہلے دورانیہ 7جنوری 2015ء سے 6جنوری 2016ء تک اور پھر اگلے دو سال کے لیے ان فوجی عدالتوں میں توسیع ہوئی، پارلیمنٹ نے دونوں مرتبہ یہ فیصلہ سیاسی اتفاق رائے سے لیا اس لیے یہ کہنا کہ فوجی عدالتیں فوج یا کسی ایک ادارے کی خواہش ہے تو ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیاسی اتفاق رائے سے کیا گیا فیصلہ تھا جو پارلیمنٹ نے لیا، اب اگر یہ فیصلہ دوبارہ لیا جاتا ہے تو پھر یہ پارلیمنٹ ہی کا فیصلہ ہو گا اور اگر پارلیمنٹ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع ہونی چاہیئے تو پاکستان آرمی ان عدالتوں کو جاری رکھے گی اور اگر پارلیمنٹ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ان فوجی عدالتوں کو ابھی نہیں ہونا چاہیئے تو پاکستان آرمی ان عدالتوں کو نہیں رکھے گی لیکن ایک پوائنٹ میں یہاں واضح کرنا چاہوں گا کہ ان فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا کرمنل جوڈیشل سسٹم اتنا موثر نہیں تھا جس طرح کے دوسرے ملکوں میں ہے، اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا وہ جوڈیشل سسٹم قائم ہو گیا ہے اور جو باقی کیسز پڑے ہیں یا ابھی چل رہے ہیں کیا اب وہ مقدمات لیے جا سکیں گی ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے ان چار سالوں میں ہمارے پاس 717 مقدمات آئے اور وہ بھی ایک پراسس کے تحت کیونکہ یہ مقدمات آرمی یا فوجی عدالتیں خود نہیں بناتیں بلکہ ایک لمبا پراسس ہے جو صوبائی اور وفاقی ایپیکس کمیٹیوں کے بعد وزیراعظم پاکستان کی منظوری کے بعد یہ مقدمات فوجی عدالتوں میں آتے ہیں جس کے بعد ہمارا ایک اندرونی پراسس ہے جو بڑی شفافیت سے آگے بڑھتا ہے، انہوں نے کہا کہ اس کا تعلق نہ تو لاپتہ افراد سے ہے اور نہ ہی اس کا تعلق اس کے ساتھ ہے کہ اس کی ضرورت صرف ہمیں ہے بلکہ ان فوجی عدالتوں نے تو ان دہشت گردوں ان کے آلہ کاروں اور ان کے سربراہان پر ایک خوف طاری کیا ہے کہ اب انصاف ہوتا ہے اور انہیں سزائیں بھی ملتی ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی ایک نمایاں کمی آئی ہے۔

(جاری ہے)

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ 4 سالوں کے دوران فوجی عدالتوں میں آنے والے 717مقدمات میں سے 646 مقدمات کو نمٹایا جن میں سے 345 مجرمان کو سزائے موت سنائی۔ انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹس نے پوری ایمانداری اور دیانتداری سے ان مقدمات کو نمٹایا۔