سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم اسفندیار کو دس سال بعد بری کردیا

عدالت عظمیٰ نے مجسٹریٹ کنور انوار علی کو 22 فروری کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ایک بچہ قتل ہو گیا ، مجسٹریٹ کی جانب سے غلط شناخت پریڈ اورقانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے ملزم کو سزا ہو گئی ، چیف جسٹس

منگل 12 فروری 2019 15:06

سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم اسفندیار کو دس سال بعد بری کردیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 فروری2019ء) سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم اسفندیار کو دس سال بعد بری کر تے ہوئے مجسٹریٹ کنور انوار علی کو 22 فروری کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیاجبکہ چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے کہاہے کہ ایک بچہ قتل ہو گیا اور مجسٹریٹ کی جانب سے غلط شناخت پریڈ اورقانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے ملزم کو سزا ہو گئی۔

منگل کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دور ان چیف جسٹس نے کہاکہ ایسے کیس دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے،ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہی چیف جسٹس نے کہاکہ ایک بچہ قتل ہو گیا اور مجسٹریٹ کی جانب سے غلط شناخت پریڈ اورقانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے ملزم کو سزا ہو گئی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہاکہ جنہوں نے قانون پر عمل کرنا ہے ان سے پوچھنا تو چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا مجسٹریٹ لگانے سے پہلے ان کی ٹریننگ نہیں ہوتی ۔وکیل نے کہاکہ مجسٹریٹ کو تعیناتی کے پہلے کورسسز کروائے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم عدالتی قانون سے ہٹ کر فیصلہ نہیں دے سکتے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے قانون کو کیوں نہیں دیکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ملک ہمارا ہے اس میں ہمارے بچوں نے رہنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے تو شروعات کرنی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم روز قتل کیسز میں دیکھتے ہیں پولیس اصل ملزم تک پہنچ جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ملزم اصلی اور شہادتیں سب نقلی ہوتی ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ہم بھی آنکھیں بند کر دیں تو قانون کدھر جائیگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا لگتا ہے ملزم گرفتار ہوا پھر شہادتیں بنائی گئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ان کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے ملزم گرفتار ہوتا ہے پھر شہادتیں بنائی جاتی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس ملزم تک کیسے پہنچی۔وکیل نے کہا کہ اطلاع پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا۔وکیل نے کہا کہ ملزم کی گرفتاری کے بعد پتا چلا کہ اس نے لاش نہر میں پھینکی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک گواہ کہتا ہے کہ اس نے چار بندوں کو نہر میں لاش پھینکتے ہوئے دیکھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے گواہ کے مطابق دو بندوں نے لاش کو نہر میں پھینکا۔

دلائل سننے کے بعد عدالت نے کہا کہ استغاثہ مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لیے ملز کو بری کیا جاتا ہے۔ عدالت نے کہاکہ مجسٹریٹ نے شناخت پریڈ درست نہیں کی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔ سپریم کورٹ نے مجسٹریٹ کنور انوار علی کو 22 فروری کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔یاد ہے کہ لاہور کے رہائشی عادل بٹ کو 2009 میں قتل کر کے اس کی لاش کو نہر میں پھینک دیا گیا تھا۔ٹرائل کورٹ نے ملزم اسفندیار کو سزائے موت سنائی۔ہائی کورٹ نے ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔