کئی نجی اسکولز کا منافع ایک ارب سے بھی زیادہ ہے، جائز طریقے سے پیسہ کمانے پر اعتراض نہیں ، چیف جسٹس آف پاکستان

سوال یہ ہے کیا 5 فیصد اضافہ منافع کو روک رہا ہی آڈٹ رپورٹس دیکھ کر لگتا ہے اسکولز کا منافع بڑھ رہا ہے،نجی اسکولز پھیلتے جارہے ہیں،نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت پر جسٹس آصف سعید کھوسہ 3سندھ میں اسکول رجسٹریشن کیلئے فیس اسٹرکچر دینا لازمی ہے، رجسٹریشن کے وقت داخلہ فیس، سکیورٹی ڈیپازٹ اور ٹیوشن فیس کا جائزہ لیا جاتا ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ Y سرکاری اسکولوں میں ایک ہی فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ نجی اسکول ہر سہولت کی الگ فیس وصول کرتے ہیں۔نجی اسکولوں کی کوشش ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ پیسہ بنایا جائے، چیف جسٹس کے ریمارکس ۰ اگر نجی اسکولوں کے ساتھ ساتھ حکومت سرکاری اسکولوں پر بھی توجہ دیتی تو حالات یہ نہ ہوتی ، جسٹس فیصل عرب

جمعرات 18 اپریل 2019 22:47

کئی نجی اسکولز کا منافع ایک ارب سے بھی زیادہ ہے، جائز طریقے سے پیسہ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 اپریل2019ء) چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ کئی نجی اسکولز کا منافع ایک ارب سے بھی زیادہ ہے۔کسی کے جائز طریقے سے پیسہ کمانے پر اعتراض نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کیا 5 فیصد اضافہ منافع کو روک رہا ہی آڈٹ رپورٹس دیکھ کر لگتا ہے اسکولز کا منافع بڑھ رہا ہے۔نجی اسکولز پھیلتے جارہے ہیں۔

نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں اسکول رجسٹریشن کیلئے فیس اسٹرکچر دینا لازمی ہے۔ رجسٹریشن کے وقت داخلہ فیس، سیکیورٹی ڈیپازٹ اور ٹیوشن فیس کا جائزہ لیا جاتا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ سرکاری اسکولوں میں ایک ہی فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

نجی اسکول ہر سہولت کی الگ فیس وصول کرتے ہیں۔نجی اسکولوں کی کوشش ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ پیسہ بنایا جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا لائسنس کی تجدید کے وقت پورا فیس اسٹرکچر تبدیل ہوسکتا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا فیس اسٹرکچر کی منظوری مجاز اتھارٹی انسپکشن کے بعد دیتی ہے۔ عدالت نے کل سالانہ 5 فیصد اضافے کی تجویز دی ۔ لگتا ہے نجی اسکول مالکان عدالت کی تجویز سے متفق نہیں ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا 5 فیصد اضافہ بھی مجاز اتھارٹی کی منظوری سے مشروط ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ گھروں میں قائم کئی اسکلولز نے نئی عمارت کے پیسے بھی طلبہ سے لیے۔کھیلوں کے میدان بنانے کے پیسے بچوں سے نہیں لیے جاسکتے۔داخلے کے لیے اپلائی کرنے کی مد میں ہی نجی اسکول کروڑوں کما لیتے ہیں۔ بچہ داخل ہو یہ نہ ہو اسکلولز کی کمائی ہوجاتی ہے۔

ان حالات میں یہ کہنا کہ 5 فیصد اضافہ غیر مناسب ہے غلط ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کوئی بھی اسکول نقصان میں نہیں جارہا۔کئی اسکولز کا منافع ایک ارب سے بھی زیادہ ہے۔کسی کے جائز طریقے سے پیسہ کمانے پر اعتراض نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کیا 5 فیصد اضافہ منافع کو روک رہا ہی آڈٹ رپورٹس دیکھ کر لگتا ہے اسکولز کا منافع بڑھ رہا ہے۔نجی اسکولز پھیلتے جارہے ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ اگر نجی اسکولوں کے ساتھ ساتھ حکومت سرکاری اسکولوں پر بھی توجہ دیتی تو حالات یہ نہ ہوتے۔ +چیف جسٹس نے کہا پہلے نجی اسکولوں کا معاملہ دیکھ لیں،پھر سرکاری اسکولوں سے متعلق بھی حکومت سے پوچھیں گے۔سرکاری اسکولوں کی حالت تو ابتر ہے۔حکومت نے سرکاری اسکولوں پر کوئی توجہ نہ دی،سرکار کو اس کا جواب دینا ہو گا۔

تعلیم،تعلیم اور تعلیم ہی سرکار کا مقصد ہونا چاہیے۔حکومت کو چاہئے سارے فنڈز کا رخ تعلیم کی طرف موڑ دے۔سر سید احمد خان نے کہا تھا تعلیم پر توجہ دو۔ تعلیم پر توجہ نہ دی تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر پنجاب حکومت کے وکیل نے دلائل گزشتہ روز یعنی 17اپریل کو دیے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ تضادات سے بھرا ہوا ہے،ہائیکورٹ نے ایک جملے میں کہا اسکول فیسوں میں اضافہ ہو سکتا ہے،دوسرے جملے میں ہی کہہ دیا فیسوں میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا حتمی طورپر ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ فیسوں میں اضافے سے صرف دو فیصد بچے متاثر ہونے کے باعث اضافہ نہیں ہو سکتا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہائیکورٹ کہتی دو فیصد بچے متاثر ہونے کے باعث فیسوں کے اضافے میں فرق نہیں پڑتا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا رمضان میں حکومت اشیا خوردونوش کی قیمتیں مقرر کرتی ہے۔اگر قیمتوں کا کنٹرول جائز قرار دیا تو پھر وکیلوں کی فیسوں پر بھی اصول لاگو ہو سکتا ہے۔

اگر قیمتوں کا کنٹرول ناجائز قرار دیا تو پھر اشیا خوردونوش بھی کنٹرول نہیں ہو سکیں گی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں بہت سی غلطیاں ہیں۔ لگتا ہے غلطیوں میں سارا قصور انگریزی کا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا فیصلے میں آ رٹیکل 10 اے کا بھی ذکر ہے۔آرٹیکل 10 اے کا اطلاق صرف ٹرائل کیلئے ہوتا ہے ہر جگہ نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانونی طور پر فیسوں میں اضافہ کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر ہی ہو سکتا ہے۔پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس فیس مقرر کرنے کا نہیں تھا،فیس میں زیادہ سے زیادہ اضافے کی حد مقرر کرنا خلاف آئین نہیں ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سال 2015 سے پہلے نجی اسکولز مرضی سے فیس میں اضافہ کرتے تھے۔پنجاب حکومت نے قانون سازی کرکے پانچ فیصد اضافے کی اجازت دی۔

قانون کے مطابق پانچ فیصد سے زائد اضافہ بلاجواز نہیں ہو سکتا۔ہائی کورٹ نے پانچ فیصد تک اضافے کی پابندی کو خلاف آئین قرار دیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سندھ میں نجی اسکولز کی رجسٹریشن تین سال کیلئے ہوتی ہے۔رجسٹریشن کی تجدید کے وقت فیس اسٹرکچر پر بھی نظرثانی ہوتی ہے۔پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا پنجاب میں بھی تجدید کے وقت فیس سٹرکچر پر نظرثانی ہو سکتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کیا تجدید کے وقت فیس اسٹرکچر پر نظرثانی کی تشریح فریقین کیلئے قابل قبول ہوگی فیس میں پانچ فیصد سے زائد اضافہ لائسنس کی تجدید کے وقت ہوگا اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف افراط زر اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے،تو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ والدین کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ایسی صورتحال میں والدین پر اتنا بوجھ کیسے ڈالا جا سکتا ہی نجی اسکول کے وکیل نیاستدعا کی کہ ان تمام عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت کو معقول اضافے کی اجازت دینی چاہیئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا عدالت اسی بات پر غور کر رہی ہے کہ ان حالات میں معقولیت کیا ہوگی اگر ایک سکول پانچ سال بعد اسٹرکچر تبدیل کرنا چاہے تو اس کے لیے کیا ضروریات ہیں بظاہر ان قوانین کے پیچھے ایک اسکیم موجود ہے جسے ہم سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تین سال تک 8 فیصد سالانہ کے حساب سے 24 فیصد اضافہ ممکن ہے۔ تین سال بعد مزید اضافہ کے لیے اتھارٹی کو مطمئن کریں،۔ آپ کی یہ دلیل کہ نجی سکول پانچ فیصد اضافہ کے پابند ہیں ٹھیک نہیں ہے۔ Mکیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی گئی ۔