2002ء سے 2007ء تک صدرِ مملکت ہونے کا دعویدار سپریم کورٹ پہنچ گیا

پرویز مشرف وردی میں صدر منتخب نہیں ہو سکتے تھے،اس لیے بطور دوسرے امیدوار کے میں اس دور کا صدر ہوں۔ درخواست گزار کا موقف

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان بدھ 10 جولائی 2019 15:21

2002ء سے 2007ء تک صدرِ مملکت ہونے کا دعویدار سپریم کورٹ پہنچ گیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔10 جولائی2019ء) سپریم کورٹ میں اپنی نوعیت کا انوکھا کیس سامنے آیا ہے۔2002ء سے 2007ء تک صدرِ مملکت ہونے کا دعویدار سپریم کورٹ پہنچ گیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق خود کو آئینی طور پر 2002ء سے 2007ء تک صدر پاکستان ماننے والے میجر ریٹائرڈ فیصل نصیر عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربرای میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

درخواست گزار  نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف وردی میں صدر منتخب نہیں ہو سکتے تھے،اس لیے بطور دوسرے امیدوار کے میں اس دور کا صدر ہوں۔آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ آپ اب تک کہاں تھے؟ آپ کی مدت شروع ہو کر ختم بھی ہو گئی۔آپ کہتے ہیں کہ صدر بن کر دہشت گردی کا خاتمہ کر دیتے ہم سب تو ایسے مسیحا کے انتظار میں تھے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بلا مقابلہ صدر منتخب ہوئے تھے؟۔

جس کا جواب دیتے ہوئے فیصل نصیر نے کہا کہ میں 2002ء میں بلا مقابلہ صدر پاکستان بنا اور بھی میجر ریٹائرڈ،چیف جسٹس نے کہا کہ 2002ء میں پرویز مشرف صدر تھے۔جس پر درخواست گزار نے جواب دیا کہ پرویز مشرف وردی کے ساتھ سیاست اور الیکشن میں حصہ نہیں کے سکتے تھے۔پرویز مشرف کے خلاف ایکشن کمیشن نے میرا ریفرنس دبا لیا تھا جب کہ ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے خلاف میری اپیل بغیر سنے مسترد کر دی،چیف جسٹس نے کہا ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل 2450 دن بعد دائر کی گئی آپ سات آٹھ سال کدھر تھے؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چھوٹا ریلیف نہیں مانگ رہے۔آپ کے حق میں فیصلہ دے دیں تو آپ 2002ء میں صدر بن کر 2007ء میں اتر بھی گئے۔فیصل نصیر نے کہا کہ میرے حق میں فیصلے سے پرویز مشرف کے این آر او سمیت تمام اقدامات کالعدم ہو جائیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت آپ کو صدر لگا دے۔صدر پاکستان لگانا عدالت کا کام نہیں۔قانون ایسے ریلیف کی اجازت ہی نہیں دیتا۔عدالت نے درخواست گزار کی نظرثانی درخواست خارج کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔