بعض اوقات میں کچھ باتوں میں جذباتی ہوجاتا ہوں،سعید غنی

جب میرے والد سے متعلق بات ہوتی ہے کہ میں گفتگو نہیں کرپاتا،وزیراطلاعات سندھ کا کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب

جمعرات 22 اگست 2019 16:37

بعض اوقات میں کچھ باتوں میں جذباتی ہوجاتا ہوں،سعید غنی
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اگست2019ء) بعض اوقات میں کچھ باتوں میں جذباتی ہوجاتا ہوں اور بات نہیں کرپاتا،محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے متعلق کوئی بات ہوتی ہے تو میں بہت جذباتی ہوجاتا ہوں،اسی طرح جب میرے والد سے متعلق بات ہوتی ہے کہ میں گفتگو نہیں کرپاتا،اسی طرح آج جب اس تقریب میں کتاب کی مصنفہ سیدہ سوہا عرفان کو سن رہاتھا تو میری حالت بالکل ایسی ہی ہوگئی تھی اور میں یہی دعا مانگ رہا تھا کہ میرے بچے بھی سیدہ سوہا جیسے ہوجائیں۔

ان خیالات کا اظہار صوبائی وزیر اطلاعات و محنت سعید غنی نے نو جوان مصنفہ سیدہ سوہاعرفان کی کتاب دی مائنڈ لیس جینیئس(Genius The Mindless )کتاب کی تقریب رونمائی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اے سی آڈیٹوریم Iمیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب یہ بچی بول رہی تھی تو میں نے احساس کیا کہ اس بچی میں لکھنے کے لئے ساتھ ساتھ بولنے کی صلاحیت بھی ہے۔

(جاری ہے)

مقررین میںشیخ جامعہ کے علاوہ صوبائی وزیر اطلاعات و محنت سعید غنی ،آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ،سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل(ر)معین الدین حیدر،سابق وفاقی وزیر برائے قانون بریسٹر شاہدہ جمیل ،سابق وفاقی وزیر جاوید جبار ،پروفیسر اعجاز فاروقی ٹرنکی پبلشر کے ڈائریکٹر علی دانش شامل تھے۔صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ جب تک دنیا باقی ہے کتاب باقی رہے گی،سوہا عرفان نے کتاب لکھ کر اپنے اہل خانہ کا نہ صرف نام روشن کیا بلکہ دنیا میں اپنی انفرادی شناخت بھی پیدا کردی ،پروفیسر اعجاز فاروقی نے کہا کہ ہمیں اس طرح کے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے تمام تر کوششیں برائے کار لائیں گے،خوشی ہوتی ہے کہ اس طرح کے نوجوان کتابیں لکھ رہے۔

معین الدین حیدر نے کہا کہ بہت کم عمری میںایک مصنفہ نے اتنی زخیم کتاب لکھی جو قابل تحسین ہے،شاعری کرنا،کہانیاں کہنا اور ناول لکھنا کوئی عام بات نہیں ہے سیب کے باغ میں گرتے سیب ہم سب کھاتے ہیں لیکن سیب جب نیوٹن کی جھولی میں گرتا ہے تو وہ کشش ثقل کا قانون پیش کردیتا ہے۔شیخ الجامعہ پروفیسر خالد عراقی نے کہا ہے کہ کتاب لکھناکوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے شوق مطالعہ کے ساتھ ساتھ مزاج میں تسلسل کا ہونا ضروری ہے،کتاب کے نام کی انفرادیت ہی قاری کو اپنی جانب سیمائل کرنے کے لئے کافی ہے،شیخ جامعہ نے مصنفہ کو جامعہ کراچی کی جانب سے گولڈ میڈل اور لائف ٹائم اسکالرشپ کا بھی اعلان کیا،جاوید جبار نے کہا ہے کہ مصنفہ صوہا عرفان نے زندگی کی کم میں ہی جن تکلیف کا سامنا کیا ہے اسکا عنصر کتاب میں واضح جھلکتا ہے،کتاب کو پڑھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس جذبہ سے اسے تحریر کی گئی ہے جو اس کے تحریر کے معیار کی بھی عکاسی کرتی ہے،میں اپنے نوجوانوں سے یہی کہوں گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ پڑھے تاکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو،سیدہ سوہا جیسے نوجوان لکھاریوںکا انگریزی میں اس طرح کی کتابیں لکھنا اس بات کی بھی دلیل ہے کہ پاکستان میں آج انگریزی تحریرکرنا اچھا ہے،بریسٹر شاہدہ جمیل نے کہا ہے کہ اس کتاب میں دل دہلادینے والے جملے موجود ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ اتنی کم عمری میں کس طرح کوئی لڑکی اتنی گہری باتیں سوچ سکتی ہے ایک ایسے دور میں جب نوجوان اسمارٹ فون کے ساتھ منسلک ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بچوں کی ذہانت ختم ہورہی ہے اس طرح کی کتاب کا آنا بہت اچھی بات ہے، ،علی دانش نے کہا کہ اس تقریب کا مقصدصرف اس کتاب کی رونمائی نہیں ہے بلکہ اپنے نوجوانوں کو کتاب لکھنے کی طرف راغب کرنا ہے۔

کتاب کی مصنفہ سیدہ سوہا عرفان نے کہا ہے کہ میں نے 16 سال کی عمر اس کتاب کو لکھا جب میں گریڈ 8 کی طالبہ تھی اس کتاب کو لکھنے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہم آپ ،جو ہو وہ آپ ہو آپ ہر ایک سے مختلف ہو،آپ کو خود پر اعتماد ہونا چاہئے آپ کیا ہیں پھر آپ دوسروں سے کہیں کہ وہ آپ کو تسلیم کر ے خود کو عزت دینے کی ضرورت ہے،میری والدہ مجھ سے کہتی تھی بیٹا تمہارے راستے میں جو بھی مشکل آئے تم اپنے مقصد سے پیچھے مت ہٹنا،میں سمجھتی ہوں ہر ایک کو خواب دیکھنے کا حق ہے کیونکہ خواب دیکھنا ہی زندگی ہے۔تقریب کے اختتام پر سیدہ سوہا عرفان نے صوبائی وزیر اطلاعات و محنت اور صدر آرٹس کونسل محمد احمداور دیگر کو اپنی کتاب پیش کی ۔