ہم نے اپنے سروں پر کھیل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی ہے،اسفندیار ولی

ہفتہ 21 ستمبر 2019 22:10

ہم نے اپنے سروں پر کھیل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی ہے،اسفندیار ولی
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 ستمبر2019ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے افغان عالمی امن کانفرنس سے واپسی پرعالمی یوم امن کے حوالے سے کہا ہے کہ قیام امن کیلئے اے این پی نے آج تک 1200سے زائد کارکنان کی قربانیاں دی ہیں،دہشتگردی اوردہشتگردوں کے خلاف اے این پی نے روز اول سے ایسی پالیسی اپنا رکھی ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اس پالیسی کی وجہ سے اے این پی اُن کے نشانے پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے دہشتگردوں کے سامنے اپنے آپ کو آگے کیا ہے تاکہ پختون دھرتی محفوظ ہو،ہم بھی ایسا کرسکتے تھے کہ ہم سے پہلے حکومتوں کی طرح ہم بھی صرف حکومت کرتے اور اپنا آئینی مدت پورا کرکے گھر چلے جاتے لیکن ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہماری دھرتی ہے،پختون میرا قوم ہے،میرے قوم کے دکھ پر مجھے اتنا ہی درد ہوتا ہے جتنا ایک عام اور غیر سیاسی پختون کو ہوتا ہے،اسفندیار ولی خان نے کہا کہ آج کے حکمران کیا اس بات کیلئے تیار ہوجائینگے کہ اس کے سر کے قیمت پر پختون قوم دہشتگردی کے عفریت سے بچ سکیں ہم نے اپنے سروں پر کھیل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی ہے،انہوں نے کہا کہ قوم کو اس پر بھی سوچنا ہوگا کہ اُن کے حقیقی نمائندے کون ہیں کوئی مانے یا نہ مانے گزشتہ چالیس سالوں سے پختونوں کی سرزمین میدان جنگ بن چکی ہے۔

(جاری ہے)

مستقل بنیادوں پر دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کئی سالوں تک ریاست نے اس عفریت کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی کیونکہ چالیس سال سے لگائی گئی اس آگ کو ٹھنڈاکرنے کیلئے سب سے پہلے ذہنیتوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔یہ مسئلہ اُس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک مین حیث القوم پختون دہشتگردی کے خلاف اُٹھ کھڑے نہیں ہوتے اور دہشتگردی کے اس عفریت کا مقابلہ نہیں کرتے،اگر پختون تقسیم ہونگے اور دہشتگردی کا مقابلہ ایک پلیٹ فارم سے نہیں کرینگے اور وقتی فائدوں اور حکومتوں کیلئے دہشتگرد کارروائیوں پر خاموش رہینگے تو اس کا فائدہ دہشتگردوں کو ہی ہوگا۔

انہوں نے کہا وہ لوگ جو پرویز مشرف کے ساتھی تھے اور دہشتگردی کے فروغ میں اُن کا ایک کردار رہا ہے ،آج اپنے آپ کو بچانے اور حکومتوں کے حصول کیلئے بھاگ گئے ہیں اور واحد اے این پی میدان عمل میں دہشتگردوں کا مقابلہ کرتی رہی ہے،اے این پی کا روز اول سے دہشتگردی پر ایک واضح موقف ہے اور اُس پر ہم آج تک کھڑے ہیں،انہوں نے کہا کہ میں آج پھر واضح کرتا جاوں کہ اختلافی باتوں سے کچھ نہیں بننے والا،جب تک ہم ایک نہیںہونگے،دہشتگردوںکی کمر عارضی طور پر ہی توڑی جاسکتی ہے،پھر سے وہ منظم ہونگے،پھر سے وہ کارروائیاں کرینگے اور پھر سے اُس میں پشتون نشانے پر ہونگے۔

اس کھیل کے پیچھے ایسے منظم لوگ اور قوتیں ہیں کہ ان کو شکست دینا اتنا آسان نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔یہ آگ اتنا منظم ہے کہ جس طریقے سے ان لوگوں نے جی ایچ کیوپر حملہ کیا،جس طریقے سے کراچی کے نیوی بیس کیمپ کو ٹارگٹ کیا گیا،کامرہ کو جس طرح ٹارگٹ کیاگیا تو اس سے بھی ہمارے لوگوں اور اقتدار کے نشے میں مست لوگوں کو اندازہ نہیں ہورہا کہ دہشتگردکس حد تک منظم ہیں انہوں نے کہا کہ اس قوت کا مقابلہ ایک ہی طریقے سے کیا جاسکتا ہے کہ قوم ایک جگہ پر جمع ہوکر یہ فیصلہ کریں کہ ہم نے دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے۔

جب تک ہمارے صفوں میں اتحاد نہیں ہوگا،اُس وقت تک ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ کو نہیں جیت سکتے۔امن کے بغیر ترقی ناممکن ہے،سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور بدامنی کو ختم کرنے کیلئے عملی اقدامات اُٹھانا ہوں گے۔