زرعی یونیورسٹی میں زراعت کے جدید رجحانات کو فروغ دینے کیلئے سینٹر آف ایکسی لینس قائم کیا جائے گا ، چیئر مین زرعی تحقیقاتی کونسل

جمعرات 10 اکتوبر 2019 23:39

فیصل آباد ۔ 10 اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 اکتوبر2019ء) پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل اسلام آباد کے چیئرمین محمد ایوب چوہدری نے کہا ہے کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں زراعت کے جدید رجحانات کو فروغ دینے کے لئے سینٹر آف ایکسی لینس قائم کیا جائے گا جس کے ذریعے پاکستان میں نئی جدتیں متعارف کرانے میں مدد مل سکے گی۔ ان باتوں کا اظہار انہوں نے سینٹر فار ایگریکلچرل بائیوکیمسٹری اینڈ بائیوٹیکنالوجی و آفس آف ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن کے زیراہتمام ایک روزہ سیمینار برائے زرعی شعبے میں بائیوٹیکنالوجی کے فروغ میں درپیش سست روی کے عوامل اور ان کا حل کے موضوع پر بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں زراعت کے شعبے کو سب سے زیادہ اہمیت دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اس مقصد کے لئے 287ارب کی خطیر رقم اس شعبے کی ترقی کے لئے مختص کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

محمد ایوب چوہدری نے کہا کہ سائنسدانوں کو آگے بڑھ کر سی پیک کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لئے عملی کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی تاکہ بین الاقوامی برآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ آنے والے غذائی چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے میں مدد لی جا سکے۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے سائنسی ترقی کے اے بی سی ماڈل کی حقیقی روح کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک ان تینوں ماڈل کو بنیادی سائنس، عملی سائنس اور کمرشلائزیشن کے طور پر فروغ دے رہے ہیں جس سے نت نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے زرعی پیداوار انقلابی بلندیوں سے ہمکنار ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیق کے شعبے میں ہمیں اہداف طے کرتے ہوئے ان کے حصول کے لئے وقت کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ نتائج کی عملی فراہمی کے لئے کوئی میکانزم تشکیل دینا ہو گا تاکہ مستقبل کے چیلنجز کے لئے سائنسی بنیاد مضبوط کی جا سکے۔ ڈاکٹر محمد اشرف نے کہا کہ پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے اشتراک سے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں نئے منصوبہ جات شروع کئے جائیں گے جس سے بائیوٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ دیگر جدید تحقیقی عوامل بروئے کار لائے جا سکیں گے۔

ممتاز سائنسدان پاکستان بائیوٹیکنالوجی انفارمیشن سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے کہا کہ بدقسمتی سے 57اسلامی ممالک میں سے صرف پاکستان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور سوڈان کے علاوہ دیگر ممالک نے ابھی تک بائیوٹیکنالوجی اور جینیاتی تنوع کی حامل فصلات کو فروغ دینے میں قابل قدر کام نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے پانچ بڑے ممالک میں امریکہ، برازیل، ارجنٹائن، کینیڈا اور بھارت شامل ہیں جنہوں نے بائیوٹیکنالوجی کا وسیع تر رقبہ زیرکاشت لا کر حیران کن نتائج حاصل کئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی اس میدان میں آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔ ایف سی کالج کے بائیوٹیکنالوجی کے چیئرمین ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک نے پاکستان میں بائیوٹیکنالوجی کے آغاز اور اس کی عملی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فیصل آباد میں نبجی جیسے ادارے کی بنیاد رکھ کر یہاں بائیوٹیکنالوجی کو ترقی دینے میں ایک خوبصورت روایت کا آغاز کیا گیا ہے جس کے ذریعے ہیومن ریسورس کے ساتھ ساتھ نئی اختراعات وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔

کیب کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد سرور خاں نے زرعی یونیورسٹی کے اہم ترین ریسرچ سنٹر میں ہونے والی جدید تحقیق کی روشنی میں کئے گئے مختلف جانوروں پر تجربات کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جی ایم فصلات سے جانداروں کے متاثر ہونے کی غلط فہمیوں کا کوئی وجود نہیں ہے اس سلسلے میں ایک ڈیٹا مرتب کیا گیا ہے جس کے تحت ان فصلات کو استعمال کرنے والے جانوروں میں کسی قسم کے منفی اثرات ان کی صحت پر مرتب نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے متعدد ممالک خوراک سے متعلق فصلات کو بائیوٹیکنالوجی کے عمل سے پیدا کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں وہاں کسی قسم کے صحت کے مسائل دیکھنے میں نہیں آئے۔ ڈین کلیہ زراعت پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم خاں نے کہا کہ ہمیں اب روایتی سستی اور کاہلی کو ترک کرتے ہوئے دنیا کے جدید ترین اور ترقی یافتہ ممالک کی ٹیکنالوجی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا ہو گا ورنہ آنے والے سالوں میں آبادی کا منہ زور سیلاب ہماری روایتی سست روی سمیت سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس سیمینار کے ذریعے ملک بھر سے آئے ہوئے سائنسدانوں کو نوجوان نسل سے نہ صرف ملنے کا موقع ملا ہے بلکہ اپنے تجربات نئی نسل تک منتقل کرنے کے لئے ایک روایت بھی قائم کی جا رہی ہے۔ تقریب سے اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عامر جمیل نے بھی خطاب کیا اور انہوں نے اس قسم کے پروگراموں کو ملک بھر کے بڑے اداروں میں منعقد کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم زرعی ترقی اور خوشحالی کی منزل کے حصول میں کامیاب ہو سکیں گے۔

سوال و جواب کے سیشن میں پروفیسر ڈاکٹر تنویر ملک، ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عابد محمود کے علاوہ بارانی زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کے سابق وائس چانسلر خالد محمود خاں نے بھی اظہار خیال کیا۔