بی جے پی کے رکن پارلیمان کا حکومتی زمینوں پر قائم تمام مساجد کو ختم کرنے کا عزم

نئی دہلی میں بی جے پی حکومت بنی تو شاہین باغ میں کوئی مظاہرہ کرنے والا نہیں ملے گا. پرویش ورما

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 28 جنوری 2020 20:55

بی جے پی کے رکن پارلیمان کا حکومتی زمینوں پر قائم تمام مساجد کو ختم ..
نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 جنوری۔2020ء) بھارت میں متنازع شہریت قانون پر جہاں شہریوں کی بڑی تعداد احتجاج کر رہی ہے وہی بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک قانون ساز نے آئندہ دہلی انتخاب میں ووٹوں کے لیے مظاہرین کے خلاف نفرت انگیز بیان کا سہارا لینا شروع کردیا ہے.غیر ملکی نشریاتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق ایک انٹرویو میں بی جے پی کے رکن پرویش ورما نے متنازع شہریت قانون کے خلاف نئی دہلی کے شاہین باغ میں موجود مظاہرین سے متعلق کہا کہ یہ لوگ زبردستی گھروں میں داخل ہوں گے اور آپ کی بیٹیوں اور بہنوں کو قتل کرنے سے قبل ان کا ریپ کریں گے.

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ نئی دہلی کے ووٹرز کو احتیاط سے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ آئندہ انتخابات میں کس پارٹی کا انتخاب کریں گے واضح رہے کہ سینکڑوں خواتین بھارتی حکومت کے متنازع شہریت قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے خلاف 4 ہفتوں سے زائد وقت سے دہلی کے شاہین باغ کو بلاک کرکے احتجاج کر رہی ہیں.ان خواتین کے احتجاج نے بھارت بھر میں ہندو انتہا پسند حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ادھر ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ کیا کہ قانون ساز کا کہنا تھا کہ اگر (نئی دہلی) میں بی جے پی حکومت بناتی ہے تو شاہین باغ میں کوئی بھی مظاہرہ کرنے والا نہیں ملے گا.

رپورٹ کیا گیا کہ پرویش ورما نے حکومتی زمین پر قائم تمام مساجد کو ختم کرنے کا عزم بھی کیا نئی دہلی کے عوام سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ عوام ان کی رائے پر غور کریں اور اٹھیں کیونکہ اب بھی وقت باقی ہے. انہوں نے یہ بھی کہا کہ کل کو وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ آپ کو بچانے نہیں آئیں گے یہاں یہ مدنظر رہے کہ اس بیان سے ایک روز قبل بی جے پی کے رہنما انوراگ ٹھاکر نے ریلی کے شرکا سے اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے ملک کے “غداروں“ کو گولی مارنے کا مطالبہ کیا تھا.اسکرول ان کے مطابق انوراگ ٹھاکر نے اس بیان میں ان لوگوں کا حوالہ دیا تھا جو ملک کے نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں .

واضح رہے کہ گزشتہ برس 11 دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہوا جس کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوﺅں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی. اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا تھا کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی، جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی.مذکورہ قانون کو 12 دسمبر کو بھارتی صدر کی جانب سے منظوری دے دی گئی تھی خیال رہے کہ بھارت کی لوک سبھا اور راجیا سبھا نے متنازع شہریت ترمیمی بل منظور کر لیا تھا جس کے بعد سے ملک بھر میں خصوصاً ریاست آسام میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے.اس قانون کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا تھا کہ مرکز اس کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندووں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے.علاوہ ازیں 9 جنوری کو بھارتیہ جنتا پارٹی کو متنازع شہریت قانون کے نفاذ پر سخت احتجاج کے باعث بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنا آسام کا دورہ منسوخ کرنا پڑگیا تھا.