دہشت گردوں کی کوئی سرحد ، کوئی قومیت اور مذہب نہیں ہوتا ہے،وزیراعلیٰ سندھ

اب بین الاقوامی برادری مجموعی طور پر دہشت گردی کے خلاف متحد ہوگئی ہے،مراد علی شاہ کا تقریب سے خطاب

بدھ 26 فروری 2020 19:20

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 فروری2020ء) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے اور دہشت گردوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، کوئی قومیت اور مذہب نہیں ہوتا ہے اور ان کا بنیادی مقصد انسانیت کے خلاف کام کرنا ہے۔اب بین الاقوامی برادری مجموعی طور پر دہشت گردی کے خلاف متحد ہوگئی ہے اور انکے خلاف کامیاب جنگ لڑ رہی ہے لیکن آج بھی معصوم جانوں کو لاحق خطرہ عروج پر ہیلہذا دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے ہماری حکمت عملی کثیرالجہتی ہونی چاہئے تاکہ ہماری نئی نسل کو معاشرتی اقدار، بقائے باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی اور اجتماعی معاشرے کے ثمرات سے آگاہی حاصل ہو۔

یہ بات انہوں نے بدھ کے روز ایک مقامی ہوٹل میں انسداد دہشت گردی کے خلاف پاکستان ایکشن (پی اے سی ٹی)، سندھ کی لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

پروگرام میں یورپی یونین کی سفیر آندرولہ کیمی نارہ، سیکرٹری داخلہ عثمان چاچڑ اور دیگر نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے جسکی کوئی بین الاقوامی حدود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ایک خاص خطے میں نمودار ہوتی ہے اور پھر پوری دنیا میں اس کے منفی اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے انسانی زندگی، صحت، جائیدادیں، امن اور استحکام منفی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گرد پاکستانی قوم کے عزم اور لچک کی وجہ سے حوصلہ شکنی کا شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سول سوسائٹی کے مشترکہ ردعمل کی بدولت درپیش چیلنجز کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا گیا ہے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ امن و سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان کی عالمی سطح پرعزم کے طور پر حکومت نے تمام وفاقی اور صوبائی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ قریبی شراکت میں ایک نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا ۔پارلیمنٹ سے منظور شدہ نیشنل ایکشن پلان میں خارجہ اور ملکی پالیسی اقدامات کو یکجا کیا گیا ہے جس کا مقصد دہشت گرد تنظیموں کا سراغ لگانا ، ان کا پیچھا کرنا ، ملک بھر میں متوسط طبقے کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو دہشت گردی کے خلاف ایک منظم اور مربوط کارروائی کے طور پر سمجھا جاتا تھا ، جس کو ملک کے سیاسی میدانوں میں بے مثال تعاون ملا ۔ انہوں نے کہا سندھ نے ایک رو رول میپ آف لا روڈ میپ تیار کیا ہے جس کے تحت دہشت گردی کی روک تھام اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ایک اہم ستون رہا ہے۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں، سول سوسائٹی اور سب سے اہم پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا کہ آپریشن ضرب عضب جسکے تحت دہشت گردی اور ردالفساد پر توجہ مرکوز کی گئی اور یہ پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف ایک موثر قدم ہیاور اس کا ثمر آنا شروع ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کے ان اسٹریٹجک اقدامات کا مقصد استحکام اور بہتر مستقبل کو یقینی بنانا ہے جبکہ یہ ملک چائنا۔ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ذریعے معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مثر طریقے سے ختم کرنے کیلئے پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے ان جامع اقدامات کو عالمی سطح پر اچھی طرح سے تسلیم کیاجارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل مسٹر انتونیو گٹیرس نے اپنے حالیہ دورے کے دوران دہشت گردی سے لے کر سیاحت تک کے پاکستان کی کاوششوں کو سراہتے ہوئیاسے تسلیم کرنے اور اس کی تعریف کرنے پر زور دیا۔ وزیر اعلی سندھ نے بے پناہ قربانیوں اور دہشت گردی سے سیاحت کی طرف بڑھنے کے لئے قابل ذکر اقدامات پر قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی روک تھام اور انسداد کے مثر طریقے سے ہمارے قومی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر ہماری حکومت کے سیاسی عزم کی تصدیق ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم یورپی یونین ، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر اپنے مشترکہ اہداف اور مقاصد کیلیے بات چیت کر رہے ہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم نے جو پی اے سی ٹی پروجیکٹ آج شروع کیا ہے وہ ایک مثال ثابت ہوگا اور پولیس ، پراسیکیوشن اور عدلیہ سمیت سندھ کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مدد و تعاون فراہم کرے گا جبکہ این اے سی ٹی اے جیسے وفاقی اداروں کے ساتھ معلومات کے تبادلے میں بہتری لائے گا۔

اپنی تقریر کے اختتام پر ، مراد علی شاہ نے اس منصوبے کو ممکن بنانے میں مالی تعاون کرنے اور یو این او ڈی سی سے وزارت خارجہ امور اور این اے سی ٹی اے کے مشورے سے مل کر اس منصوبے کی مالی مدد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس منصوبے کے ذریعے دہشت گردی سے لاحق موجودہ اور ابھرتے ہوئے خطرات پر موثر انداز میں قابو پانے کے لیے اپنی طرف سے اپنے ردعمل کو مزید مستحکم کرنے کے منتظر ہیں۔