گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ میں سالانہ کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد

13ویں سالانہ کھیلوں کے مقابلے کالج کی گراؤنڈ میں ہوئے، طلباء و طالبات نے ایونٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا

بدھ 18 مارچ 2020 23:27

گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ میں سالانہ کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 11 مارچ 2020ء) گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ میں سالانہ کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد، طلباء و طالبات نے ایونٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تفصیلات کے مطابق گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ کے 13ویں سالانہ کھیل کالج کے گراؤنڈ میں منعقد ہوئے جہاں پر دنیا کی سب سے بڑی سپورٹس پن کولیکشن کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ 
افتتاح سابق سیکرٹری تعلیم قاضی آفاق حسین نے کیا۔

 
اس موقع پر سابق وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی و ممبر پنجاب ہائر ایجوکیش کمیشن ڈاکٹر خلیق الرحمان بطود مہمانِ خصوصی موجود تھے۔ 
کھیلوں میں 100 میٹر، 200 میٹر، 1500 میٹر، 3000 میٹر، سلو سائیکلنگ، بوری ریس، تھری لگ ریس، ڈسک تھرو، جولین تھرو، چلڈرن ریس، گولا پھیکنا، کراٹے، جمناسٹک، رسہ کشی، میوزیکل چیئر اور چاٹی ریس کے مقابلے ہوئے۔

(جاری ہے)

 
 طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر اعجاز بٹ صاحب کا کہنا تھا کہ ورزش کے مقابلہ میں کھیل کود زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس سے سارے جسم کی ورزش ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی دوستوں کے ساتھ مل کر کھیلنے کی وجہ سے ایک حد تک دل کا بہلاوا بھی ہو جاتا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کھیل کود کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان کی صحت بچپن میں اچھی ہو جاتی ہے اور وہ زندگی میں محنت مشقت کے قابل ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ کا مزید کہنا تھا کہ کھیل کود ہمیں ڈسپلین میں رہنا سکھاتا ہے اور کھیل کے جو اصول اور قواعد ہوتے ہیں، کھلاڑی ان اصولوں پر چلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو قوم ڈسپلن چھوڑ دیتی ہے وہ تباہ ہو جاتی ہے اور اس کی ترقی رک جاتی ہے۔ 
تمام طالب علم اگر کھیل کود کے ذریعے ڈسپلن یعنی نظم و ضبط کے پابند ہونا سیکھ جائیں تو یہ عادت زندگی بھر قائم رہتی ہے اور انسان کھیل کود کے بعد زندگی کے میدان میں بھی ڈسپلن کا پابند ہو جاتا ہے۔

تقریب کے مہمان خصوصی سابق وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی و ممبر پنجاب ہائر ایجوکیش کمیشن ڈاکٹر خلیق الرحمان نے کھیلوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کھیل کود کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم زندگی کی جدوجہد میں کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ناکامیوں کو بھی برداشت کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ 
جب دو ٹیمیں آپس میں مقابلہ کرتی ہیں تو ظاہر ہے کہ ایک وقت میں دونوں فتح یاب نہیں ہوتیں۔

ایک ٹیم جیت جاتی ہے اور دوسری ٹیم ہار جاتی ہے۔ اس کے باوجود دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کو مبارکباد دیتی ہیں۔ 
ہارنے والی ٹیم کے ممبر خندہ پیشانی سے اپنی ہار کو تسلیم کرتے ہوئے دوسری ٹیم کے ممبران کی تعریف کرتے ہیں انہیں مبارکباد دیتے ہیں اور پھر واپس لوٹ کر دوبارہ پریکٹس کرتے ہیں تاکہ آنے والے مقابلہ میں جیت حاصل کر سکیں۔ کھیلوں کے اختتام پر طلباء میں سے بہترین اتھلیٹ ابوذر جبکہ طالبات میں سے بہترین اتھلیٹ آصفہ مجید قرار پائیں۔