چینی برآمد کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، برآمدکنندگان نے صورتحال سے دوہرا فائدہ اٹھایا، پہلے سبسڈی حاصل کی اور پھر مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں بڑھا کر بھاری منافع بھی کمایا،تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ

اتوار 5 اپریل 2020 02:05

اسلام آباد ۔ 4 اپریل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 اپریل2020ء) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے چینی کی قیمت میں اضافے کی تحقیقات کے لئے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ چینی برآمد کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، برآمدکنندگان نے صورتحال سے دوہرا فائدہ اٹھایا ہے، پہلے سبسڈی حاصل کی اور پھر مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں بڑھا کر بھاری منافع بھی کمایا ۔

چینی کی قیمت دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک بڑھا دی گئی تھی حالانکہ جی ایس ٹی میں اضافہ کا اطلاق یکم جولائی 2019 میں ہوا تھا۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2019 میں چینی کی برآمد کے ساتھ مقامی مارکیٹ میں قیمت فوراً بڑھنا شروع ہو گئی۔ رپورٹ کے مطابق چینی کی برآمد پرحکومت کی جانب سے سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والوں میں مخدوم عمر شہریار ( مخدوم خسرو بختیار کے رشتہ دار) کا ملکیتی آر وائے کے گروپ شامل ہے جس نے مجموعی برآمدی سبسڈی کا 15.83 فیصد حاصل کیا جو 3.944 ارب روپے بنتا ہے۔

(جاری ہے)

چوہدری منیر اور مونس الٰہی بھی اس گروپ میں پارٹنرز ہیں۔ اسی طرح جہانگیر خان ترین کے جے ڈی ڈبلیو گروپ نے برآمدی سبسڈی کا 12.8 فیصد حاصل کیا جو 3.058 ارب روپے ہے۔ ہنزہ شوگر ملز نے 11.56 فیصد سبسڈی حاصل کی جو 2.879 ارب روپے ہے، ان شوگر ملز کی ملکیت محمد وحید چوہدی، ادریس چوہدری اور سعید چوہدری کے پاس ہے۔ شریف فیملی کی ملکیتی شوگر ملز نے مجموعی برآمدی سبسڈی کا 5.9 فیصد حاصل کیا جو 1.472 ارب روپے ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے ملک میں چینی کی پیداوار ملکی ضروریات سے تاریخی طور پر زیادہ رہی ہے، اس لئے چینی کی برآمد و سبسڈی، چینی کی مقامی مارکیٹ میں قیمت میں اضافے اور سبسڈی سے بڑا فائدہ اٹھانے والوں کے ساتھ ساتھ اس پہلو کی تحقیقات بھی ضروری تھیں۔ رپورٹ کے مطابق 2016-17 اور 2017-18 میں ملک کی مقامی طلب سے زیادہ چینی کی پیداوار ہوئی اس لئے چینی برآمد کی گئی۔

پاکستان میں چینی کی مقامی کھپت تقریبا 5.2 ملین میٹرک ٹن سالانہ ہے۔ سال 2016-17 میں ملک میں چینی کی ریکارڈ 7.08 ملین میٹرک ٹن پیداور ہوئی جبکہ سال 2017-18 میں اس کی پیداوار 6.63 ملین میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی۔ تحقیقاتی کمیٹی کی درخواست پر وفاقی حکومت نے چینی کے بحران کی تحقیقات اورر شوگر ملز کے فرانزک آڈٹ کے لئے کمیشن قائم کیا ہے۔ انکوائری کمیشن نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور نو ٹیموں نے 10 شوگر ملوں کے فرانزک آڈٹ کے کام کا آغاز کر دیا ہے، ان ملوں میں الائنس شوگر ملز گھوٹکی، العریبیہ شوگر ملز سرگودھا، المعز 1 شوگر ملز ڈی آئی خان، المعز 2 شوگر ملز میانوالی، حمزہ شوگر ملز رحیم یار خان، ہنزہ 1 اور ہنزہ 2 شوگر ملز فیصل آباد و جھنگ اور جے ڈی ڈبلیو 1,2,3 شوگر ملز رحیم یار خان و گھوٹکی شامل ہیں۔

کمیشن نے محدود وقت کی وجہ سے مذکورہ ملوں کو فرانزک آڈٹ کے لئے چنا ہے جو ملک میں چینی کی مجموعی پیداوار کا 26 فیصد پیدا کرتی ہیں اور ملک کے تین صوبوں میں واقع ہیں، اس طرح تناسب کے لحاظ سے تحقیقات کے لئے یہ ایک مناسبسیمپل ہے۔ انکوائری کمیشن کو اپنا کام مکمل کرنے کے لئے 40 دن کا وقت دیا گیا ہے۔ دریں اثنا تحقیقاتی کمیٹی نے رمضان کے دوران چینی کی قیمت بڑھنے کے امکان کا جائزہ لینے کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا ہے۔

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق گنے کی قیمت خرید 190 روپے فی 40 کلو گرام کے تناسب سے چینی کی ایکس ملز پرائس 83.59 روپے فی کلو بنتی ہے۔ اس طرح ایکس ملز پرائس اور ریٹیل پرائس کے درمیان 5 سے 7 رروپے کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی کی فی کلو قیمت تقریبا 89 سے 91 روپے ہو گی۔ اس سیزن میں گنے کی اوسط قیمت میں اضافی قیمت جو 218.85 روپے فی 40 کلو گرام ہے کے ساتھ چینی کی ایکس مل اور ریٹیل پرائس مزید بڑھے گی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بڑی شوگر مارکیٹس میں رمضان کے لئے چینی کی قیمت کے حوالے سے سٹہ پہلے ہی 100 روپے فی کلو عبور کر گیا ہے، فروخت شدہ چینی اٹھانے کا عمل بہت سست ہو گیا ہے اس لئے طلب و رسد میں فرق پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی محکموں کو صورتحال سے آگاہی دی جائے اور سٹہ کھیلنے والوں کے خلاف فوری کریک ڈائون کیا جائے، ایسے عناصر کے بارے میں صوبائی سپیشل برانچ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس پہلے ہیں معلومات ہوں گی۔

رپورٹ کے مطابق 18مارچ 2020 تک ملک میں چینی کی مجموعی پیداوار 4.78 ملین میٹرک ٹن تھی جس میں کیری اوور سٹاک تقریبا 0.52 ملین میٹر ٹن ہے۔ اس طرح چین کا مجموعی سٹاک 5.3 سے 5.4 ملین میٹرک ٹن ہو گا جو ملک کی مقامی کھپت کے تقریبا برابر ہے۔ یہ معمولی فرق ذخیرہ اندوزی اور چینی کی مارکیٹ پر اثرانداز ہونے کا موقع فراہم کرے گا، اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو مارکیٹ میں قیمتوں کے استحکام کے لئے سٹریٹجک ریزرو کے طور پر چینی کی درآمد کا جائزہ لینا چاہیے۔