کورونا وائرس کی عالمی وباء گھر سے کام، ٹیلی میڈیسن، لائیو سٹریمنگ، آن لائن خریداری، سفر اور سیاحت کے شعبوں میں نئے رجحانات کا باعث ، ماحولیات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے، برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ

پیر 27 اپریل 2020 16:50

9 اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 اپریل2020ء) کورونا وائرس کی عالمی وباء کے باعث سماجی اور معاشرتی رویوں میں رونما ہونے والی تبدیلی کے باعث معمولات زندگی بھی تیزی سے بدل رہے ہیں، گزشتہ چند ہفتوں کے دوران گھر سے کام کرنا، ٹیلی میڈیسن، لائیو سٹریمنگ، آن لائن خریداری، سفری اور سیاحت کے شعبوں میں نئے رجحانات کے ساتھ ساتھ ماحولیات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق زراعت اور تعمیرات کے شعبوں کے کارکنوں کیلئے تو باہر جانا ضروری ہے کیونکہ ان کے کام کی ہی نوعیت ایسی ہے لیکن ایسے افراد جو ڈیسک پر کام کرتے ہیں اٴْن کا نیا دفتر اب گھر میں ہی ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں کاروباری اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ملازمین سے گھر سے کام کرائیں ان میں ایپل اور مائیکرو سافٹ جیسی بڑی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

گھر سے کام کرنے کا رجحان کورونا وائرس سے پہلے سے موجود ہے لیکن اب یہ معمول کی بات ہو سکتی ہے۔ آسٹریلیا کی بانڈ یونیورسٹی میں اداروں کے کام کے انداز اور طریقہ کار کے ماہر لبی سینڈر نے کہا ہے کہ دفتر سے دور گھر بیٹھ کر کام کرنے کو معمول بنانے میں کورونا وائرس ایک نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔ سال 2019ء میں لندن کی کنسلٹینسی فرم ’’انٹرنیشنل ورک گروپ‘‘ کے سروے نتائج کے مطابق دنیا بھر میں 60 فیصد سے زیادہ اداروں کی پالیسی لچکدار ہے لیکن اس تناسب میں مختلف ممالک کے درمیان بہت فرق ہے۔

جرمنی میں یہ شرح 80 فیصد جبکہ جاپان میں صرف 32 فیصد ہے۔ انٹرنیشنل ورک گروپ نے توقع ظاہر کی ہے کہ اداروں میں کام کے لچکدار انتظامات مستقبل میں زیادہ مضبوط ہوں گے اور جاری رہیں گے۔ رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے حالیہ عالمی اقدامات سے خود کو تنہا کرنے اور قرنطینہ میں رہنے کے تجربہ سے تفریح کے طریقوں میں بھی تبدیلیاں آ سکتی ہیں. ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والی کمپنی اسٹیٹسٹا کے مطابق گزشتہ برس 56 کروڑ افراد سنیما گئے تھے جو گزشتہ دو سال کے مقابلہ میں 18 فیصد اضافہ ہے۔

لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں سٹریمنگ پلیٹ فارم بھی بہت مقبول ہو رہے ہیں اور چند ہفتوں میں صرف نیٹ فلکس کے صارفین کی تعداد 47 فیصد اضافہ کے ساتھ 16 کروڑ 10 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اب کورونا وائرس کی وجہ سے سنیما بند ہو رہے ہیں امکان ہے کہ نیٹ فلکس اور دوسری سٹریمنگ سروسز کے صارف بڑھ جائیں گے۔ انسانی رجحانات کے ماہر بلیک مورگن نے کہا ہے کہ اٹلی اور اسپین میں نیٹ فلیکس کا موبائل ایپ پہلی مرتبہ ڈاؤن لوڈ کرنے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اٹلی میں 57 فیصد جبکہ اسپین میں 34 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں میں تفریح اور مسائل سے فرار کی خواہش میں وہ اضافہ ہوا ہے جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ امریکی کنلسٹینٹ اور انٹرٹینمنٹ کی صنعت کے ماہر رچرڈ گرین فیلڈ نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ افراد سٹریمنگ کریں گے اور امریکہ جیسے ممالک میں تھیٹر کے مالکان کیلئے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ رچرڈ گرین فیلڈ نے کہا کہ لوگوں کے رجحانات تو پہلے ہی تبدیل ہو رہے تھے لیکن اب ان میں بہت تیزی آئے گی اور رواں سال کے اختتام تک عالمی سطح پر انٹرٹینمنٹ کا کاروبار دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے۔

دوسری جانب گیمنگ کی صنعت کو بڑے منافع کی توقع ہے۔ چین میں گھروں میں قید رہنے کی وجہ سے گیمنگ کے صارفین میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ کئی شہروں میں ہونے والے لاک ڈاون کے بعد چین میں ایپل کے ایپ سٹور سے بڑی تعداد میں ویڈیو گیمز ڈاؤن لوڈ کی گئیں۔ لاک ڈاؤن کے باعث سفر اور سیاحت کے شعبوں میں بھی نئے رجحانات نے جنم لیا ہے کیونکہ کووڈ 19 نے سیاحت کی صنعت کو مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے اور اِس سے سفر کے بارے میں بنیادی تصورات بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔

ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم کونسل کے مطابق وباء کی وجہ سے دنیا بھر میں سیاحت سے منسلک 5 کروڑ نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی ای) کے تخمینہ کے مطابق رواں سال عالمی سطح پر ہوا بازی کی صنعت کو 113 ارب ڈالر ست زیادہ کا نقصان ہو سکتا ہے۔ ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ مارچ میں دنیا بھر میں 11 لاکھ فلائٹس کینسل کی گئیں اور بکنگ میں 50 فیصد کمی آئی جبکہ اپریل کی بکنگ میں 40 فیصد اور مئی کے لیے فلائٹ بکنگ میں 25 فیصد کمی ہوئی ہے۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئے گئے اقدامات سے بھی سیاحت کی صنعت کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اِن اقدامات میں رضاکارانہ طور پر خود کو سب سے دور کر لینا اور عوامی اجتماعات پر پابندیاں وغیرہ شامل ہیں جس کی وجہ سے سیاحت پر انحصار کرنے والے ممالک مزید برے وقت کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ سائوتھ آسٹریلیا یونیورسٹی میں ٹورازم مینجمنٹ کی پروفیسر فرییا ہگنز نے کہا ہے کہ وباء سے ہمیں ایک غیر متوقع اور قیمتی موقع ملا ہے کیونکہ دنیا میں کئی ایسے علاقے ہیں جو ضرورت سے زیادہ سیاحت کا شکار ہیں اور جہاں مقامی افراد بہت زیادہ سیاحوں کی آمد سے خوش نہیں ہیں۔

ان کو کچھ سکون ملے گا. انہوں نے کہا ہے کہ سیاحت کو معاشی ترقی کے لیے استعمال کرنے پر دوبارہ سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالہ سے ائنسدان بھی اِس جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ انسانوں کی جانب سے ماحول، حیاتیاتی تنوع اور قدرتی وسائل کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے اکثر وبائیں جنم لیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم معیشتوں میں توازن اور حدود متعین نہیں کریں گے تو ایک کے بعد ایک بحران آتا رہے گا۔

دنیا بھر میں آن لائن شاپنگ اتنی عام نہیں ہے جتنی شاید سمجھی جاتی ہے کیونکہ ان علاقوں میں بھی آن لائن خریداری بہت زیادہ نہیں ہے جہاں ہر طرف انٹرنیٹ موجود ہے۔ کورونا کے عالمی بحران کی وجہ آن لائن شاپنگ کے رجحانات بھی تیزی سے بدل رہے ہیں. گزشتہ سال 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق یورپی یونین میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں سے 30 فیصد افراد نے دوران سال آن لائن خریداری نہیں کی تھی وبا کے بعد لیکن 55 سے 74 سال کے افراد میں اب یہ شرح بڑھ کر 45 فیصد ہو گئی ہے کیونکہ گھروں سے باہر نہ نکلنے کی وجہ سے صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔

یورو مانیٹر تحقیقی ادارے کے مطابق آن لائن شاپنگ کے بارے میں عام لوگوں کا رویہ تبدیل ہو رہا ہے اور اس کا رجحان اس عمر کے لوگوں میں بھی بڑھ رہا ہے جو نئے تجربوں سے خائف رہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جہاں بھی لاک ڈاؤن کیا جا رہا ہے وہاں آن لائن خریداری میں نمایاں اضافہ متوقع ہی. عالمی سطح پر لاک ڈاؤن کے دوران سیٹلائٹ سے لی گئی مختلف ممالک کی تازہ تصاویر سے واضح ہوتا ہے کہ چین میں ہوا میں آلودگی کی شرح بڑی حد تک کم ہوئی ہے جس کی وجہ کئی شہروں میں کیا جانے والا لاک ڈاؤن ہے جس کی بنا پر سڑکوں پر ٹریفک میں کمی اور فیکٹریوں سے آلودہ دھواں کا کم اخراج ہے۔

صنعتی اور ٹریفک کی آلودگی میں کمی سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بھی بڑی حد تک کم ہوا ہے لیکن خدشہ ہے کہ جیسے ہی دنیا معمول پر واپس آئے گی آلودگی کی پرانی سطح بھی واپس آ جائے گی۔ آب و ہوا میں تبدیلی اور عالمی حدت میں اضافہ کے خلاف کام کرنے والے کارکنوں کو موجودہ صورتحال میں بہتری کے امکانات کی توقع ہے۔ سٹینفرڈ یونیورسٹی کے تحقیق کار مارشل برک نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ انسانی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر خلل پڑنے اور اس سے باقاعدہ طور پر بڑے اور جزوی فائدہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معمول کے کاموں کے طریقوں میں بھی ایسے ہی خلل کی ضرورت ہے۔

مارشل برک نے کہا ہے کہ چین میں ہوا کے معیار میں اس وقتی یا عارضی بہتری سے پانچ سال سے کم عمر کے 4 ہزار بچوں کی زندگی بچی ہے اور 73 ہزار ایسے لوگوں کو بھی تحفظ ملا ہے جن کی عمر 70 سال سے زیادہ ہے۔ یہ تعداد چین میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد سے بہت زیادہ ہے کیونکہ چین میں کورونا وائرس سے صرف تین ہزار سے زیادہ لوگوں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم کوویڈ۔19 سے بچ جاتے ہیں تو یہ وائرس ایسے طریقے ڈھونڈنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے کہ ہم کم سے کم آلودگی پیدا کر کے اپنے کام کس طرح سر انجام دیں. کورونا کی عالمی وبا کے باعث ٹیلی میڈیسن کے شعبہ نے بھی تیزی سے ترقی کی ہے اور روایتی طریق? کار سے ہٹ کر صحت کی سہولیات پہچانے کے لیے ٹیلی مواصلات اور ورچوئل ٹیکنالوجی کا استعمال تیزی سے مقبول ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کوورنا وائرس کی وباء کے تناظر میں مرض کی تشخیص اور علاج کے لیے ٹیلی ہیلتھ کا استعمال مزید اہم ہو گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی اِس رجحان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ماہرین صحت کہتے ہیں کہ اس طریقہ سے اخراجات میں کمی ہو گی اور صحت کی سہولیات تک آسان رسائی میں اضافہ ہو گا. امریکہ کی ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی کے صحت عامہ کی پالیسی کے ماہر اسٹیو ڈیوس نے اس حوالہ سیبکہا ہے کہ ٹیلی ہیلتھ خود ساختہ قرنطینہ میں مدد گار بن کر وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے جبکہ اِس کے ذریعے بیماریوں کا علاج بھی جاری رہ سکتا ہے۔