سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ سنا دیا

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری شوکاز نوٹس بھی کالعدم قرار دیے گئے۔ سپریم کورٹ کے10 رکنی لارجر بنچ کا مختصر فیصلہ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعہ 19 جون 2020 16:15

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ سنا دیا
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔19 جون 2020ء) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے، سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف دائر صدارتی ریفرنس کو خارج کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست منظور کرلی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری شوکاز نوٹس بھی کالعدم قرار دیے گئے، جسٹس عمر عطاء بندیال نے کیس کا مختصر فیصلہ سنا دیا ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم 10رکنی فل کورٹ بنچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کیخلاف درخواست پرآج جمعہ کو سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، لیکن آج شام کو ہی عدالت نے محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف دائر صدارتی ریفرنس کو خارج کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست منظور کرلی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری شوکاز نوٹس بھی کالعدم قرار دیے گئے، جسٹس عمر عطاء بندیال نے کیس کا مختصر فیصلہ سنا دیا ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے، عدالت کے 7 جج صاحبان نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا۔ جبکہ فیصلے میں3 ججز نے معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے سے اختلاف کیا ہے۔ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰ آفریدی نے فیصلے میں اضافی نوٹ لکھا۔

جبکہ صرف ایک جج جسٹس یحیٰ آفریدی نے جسٹس فائز عیسیٰ کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا۔
ایف بی آر جسٹس قاضی فائرعیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو 7 دنوں میں نوٹس جاری کرے، ہر پراپرٹی کا الگ سے نوٹس جاری کیا جائے۔ ایف بی آر کے نوٹس جج کی سرکاری رہائشگاہ پرارسال کیے جائیں۔ ایف بی آر کے نوٹسز میں جج کی اہلیہ اور بچے فریقین ہوں گے۔

ایف بی آر حکام معاملے پر التواء بھی نہیں دیں گے۔ انکم ٹیکس کمشنر60 روز میں معاملے کی کاروائی مکمل کرے، ایف بی آر حکام فیصلہ کرکے رجسٹرار سپریم کورٹ آفس کو بھیجیں۔ چیئرمین ایف بی آر خود رپورٹ پر دستخط کرکے رجسٹرار آفس کو جمع کروائیں۔ اگر قانون کے مطابق کاروائی بنتی ہوئی تو جوڈیشل کونسل کاروائی کرنے کی مجاز ہوگی۔
اس سے قبل آج سماعت کے دورا ن حکومتی وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اورایف بی آر دونوں نے عدالت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا کا ایف بی آر میں جمع ٹیکس ریکارڈ سربمہر لفافے میں پیش کیا۔

جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے بھی مسز فائز عیسیٰ کی منی ٹریل، زرعی زمین، پاسپورٹ کی نقول سمیت تمام دستاویزات کا ریکارڈ عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ابھی ایف بی آر کے سربمہرلفافے کا جائزہ نہیں لیں گے، نہ ہی اس پر کوئی حکم جاری کریں گے، جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ تمام ریکارڈ سامنے لاچکی ہیں، پہلے اس کی تصدیق کروائیں۔

ابھی ہم جسٹس فائزعیسیٰ کے وکیل کو سنتے ہیں۔جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے جواب الجواب دلائل میں عدالت کو بتایا کہ لندن میں جائیدادوں کو تلاش کرنے کیلئے ویب سائٹ کا استعمال کیا گیا، ویب سائٹ پر سرچ کیلئے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔جس کے بعد ویب سائٹ متعلقہ بندے کو آن لائن ادائیگی کی رسید بھی ای میل کرتی ہے۔حکومت اگر رسیدیں دکھائے تو سامنے آجائے گا کس نے جائیدادوں کی سرچ کی ہے۔

انہوں نے عدالت کو مزید جواب الجواب دلائل میں بتایا کہ وزیراعظم کو کوئی نئی ایجنسی یا ادارہ بنانے کااختیار نہیں، اگر کوئی اثاثہ جات ریکوری یونٹ بنانا ہے تو اس کیلئے رولز میں ترمیم کرنا ہوگی۔موجودہ یونٹ کے ٹی اوآرز قانون کے خلاف ہیں۔انہو ں نے عدالت کو بتایا کہ حکومت پتا نہیں کیس میں کیا چاہتی ہے۔اس سے قبل گزشتہ فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا کیریرا نے عدالت کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے، سرینا عیسیٰ نے عدالت کو اپنی پراپرٹی کی خریدوفروخت اور قیمت کی منی ٹریل بھی دکھا دی ہے۔ انہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے تقریباً پونے گھنٹے کے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ میں پیدائشی طور پر اسپینش ہوں، میری والدہ کا نام کریرا تھا، والد کا نام کھوسو ہے، لہذا میرے برتھ سرٹیفکیٹ پر نام سریناکریراکھوسوہے،اسی نام سے میرا پاسپورٹ ہے،جب پاکستان میں 1983ء میں میری شادی ہوئی،اس کے بعد حکومت پاکستان کے شناختی کارڈ میں میرا نام سرینا عیسیٰ ہے۔

میرے پاس اسپینشن پاسپورٹ ہے، جب میرے شوہر وکیل تھے تو پانچ سال کا ویزہ دیا جاتا تھا۔ لیکن 2018ء میں ہراساں کرنے کیلئے ایک سال کا ویزہ دیا گیا۔ جبکہ میرے والد اس وقت بیمار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی امریکن سکول میں پڑھاتی رہی ہوں۔ تمام ٹیکس ریٹرنز ریحان نقوی کے نام پر جاری کرتی رہی۔ میرا کلفٹن میں ایک گھر اور شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک پلاٹ بھی تھا۔

اسی طرح میرے والد کے نام پر جو زرعی زمین فراہم کی گئی وہ ان کے نام کے اوپر ہے۔ان تمام جائیدادوں کے کھسرا نمبرڈیرہ مراد جمالی، نصیرآباد میں زرعی زمین کا خسرہ نمبرعدالت کو بتائے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ زرعی اراضی پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا، یہ ہمارا قانون ہے، میں نے اب تک جتنی ٹیکس ریٹرنز داخل کی ہیں، وہ ریحان نقوی کی ایڈوائس پر جمع کروائی ہیں۔

لیکن جب مجھے معلوم ہو اکہ پاکستان میں قانون تبدیل ہوگیا ہے تو پھر انہوں نے اس کے قانون کے مطابق ٹیکس ریٹرنز جمع کروائے۔ آخری ٹیکس ریٹرن 76 لاکھ سے زیادہ ہے۔ جو میری پراپرٹی کراچی کلفٹن اور شاہ لطیف ٹاؤن میں تھی، وہ بھی فروخت کی گئی۔ پھر جب میں نے بیرون ملک پراپرٹی خریدنی تھی تو پاکستان کے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں دو اکاؤنٹس ایک پاؤنڈ اور دوسرا ڈالر کیلئے اکاؤنٹ کھولے گئے۔

ان اکاؤنٹس میں 7 لاکھ پاؤنڈ کی رقم منتقل کی۔ میرے اکاؤنٹس پاسپورٹ کے نام پر ہیں۔ جسٹس فائزعیسیٰ کی اہلیہ نے عدالت کو اپنی تینوں جائیدادوں کی قیمت بھی بتائی۔ پہلی پراپرٹی 2004ء میں اپنے نام پر خریدی۔ جبکہ 2013ء میں 2لاکھ 43 ہزار پاؤنڈ کی پراپرٹی خریدی۔ 2018ء میں جمع کروائے گئے ٹیکس ریٹرن میں ان تینوں پراپرٹیز کا ذکر تھا۔ تمام پراپرٹیز پاسپورٹ پر خریدی ہیں، کیونکہ لندن میں شناختی پر پراپرٹی نہیں خریدی جا سکتی۔

جس پراپرٹی پر بات ہورہی ہے۔ اس معاملے پر لندن میں میرے بچوں بیٹی اور بیٹے کو بھی ہراساں کیا جاتا رہا۔ میں پاکستان میں اور بیرون ملک دونوں جگہ ٹیکس ادا کرتی ہوں۔ قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ عدالت میں اپنا مؤقف دیتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔ کہ مجھ پر الزام ہے کہ میں نے جج کے آفس کا غلط استعمال کیا۔