خواتین میں پورن فلمیں دیکھنے کے رجحان میں اضافہ، وجوہات کیا ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 26 نومبر 2020 21:00

خواتین میں پورن فلمیں دیکھنے کے رجحان میں اضافہ، وجوہات کیا ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 نومبر 2020ء) عمومی طور پر خواتین پورن فلمیں دیکھنا پسند نہیں کرتیں لیکن متعدد پورن ویب سائٹس کے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق ان کے صارفین کی ایک تہائی تعداد خواتین پر مشتمل ہے اور اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ آئیے سب سے پہلے اس معاملے پر سائنسی لحاظ سے بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔

جن نیوران یا عصبی خلیوں کی وجہ سے انسان میں پورنوگرافک مواد دیکھنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے، انہیں مِرر نیوران (عکسی عصبی خلیے) کہتے ہیں۔

مرر نیوران انسان کو ویسی ہی حرکات کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جیسی وہ مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی انسان قہقہے لگا رہا ہے یا چیخ رہا ہے تو یہی مرر نیوران آپ کو بھی ویسا کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ نیوران نہ صرف انسانوں بلکہ پرندوں اور دیگر جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔

یہ نیوران مردوں اور خواتین میں برابر پائے جاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک خواتین اور پورن فلموں کے موضوع پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے۔

خواتین پورن کیوں دیکھتی ہیں؟

امریکا میں والپاریسو یونیورسٹی کے ماہر نفسیات شان میک نیبنی اور ان کے ساتھیوں کی خواتین اور پورن فلموں کے موضوع پر ایک حالیہ تحقیق اس پر مزید روشنی ڈالتی ہے۔ ان کی طرف سے کی جانے والی تحقیق میں امریکا اور ہنگری کی چوبیس سو سے زائد خواتین کو شامل کیا گیا تھا۔ اس تحقیق کا بنیادی مقصد یہ جاننا تھا کہ پورن فلمیں خواتین کی جنسی خواہش اور جنسی تعلقات کو کیسے متاثر کر رہی ہیں؟

اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جو خواتین پورن دیکھتی ہیں، ان میں جنسی عمل کی تکمیل کی خواہش مزید بڑھ جاتی ہے۔

اوراگر یہ خواتین اپنے پارٹنر کے ساتھ جنسی عمل کرتی ہیں تو جنسی خواہش کی تکمیل کے حوالے سے انہیں کم مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کس عمر کی خواتین زیادہ پورن دیکھتی ہیں؟

اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ نوجوان خواتین میں پورن دیکھنے کے رجحان میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس امر کی تصدیق پورن ویب سائٹس کے اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے۔

ایکس ہامسٹر نے رواں برس فروری میں ایک سروے کے نتائج جاری کیے تھے۔

اس سروے میں ایک لاکھ سے زائد خواتین کو شامل کیا گیا تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ پورن دیکھنے والی تقریبا چونتیس فیصد خواتین کی عمریں اٹھارہ سے چوبیس سال کے درمیان ہیں۔ اس سروے میں شامل ساٹھ فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جنسی زندگی بہتر بنانے کے لیے پورن فلمیں دیکھتی ہیں۔

خواتین کے کردار میں تبدیلی

میڈیٹا اومنگ جرمنی میں یونیورسٹی آف پاڈربورن میں ثقافتی امور کی ماہر ہیں اور انہوں نے پورنوگرافی کے رجحان پر تحقیق کر رکھی ہے۔ ان کے مطابق بھی ایسی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جو فحش فلمیں دیکھنا پسند کرتی ہیں۔

ان کے مطابق یہ رجحان مغربی اور انٹرنیٹ تک رسائی والے ممالک میں زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، ''اس رجحان کا تعلق اکیسویں صدی اور اس میں خواتین کے تبدیل ہوتے ہوئے کردار سے بھی ہے۔

‘‘

’ڈیپ فیک‘ ٹیکنالوجی کے استعمال میں ڈرامائی اضافہ، رپورٹ

میڈیٹا اومنگ کا مزید کہنا تھا کہ مغربی ثقافت میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس میں جنسی خواہشات بھی شامل ہیں، ''معاشرے میں آہستہ آہستہ صنفی تصورات تبدیل ہو رہے ہیں۔ایسے تصورات کو بھی چیلنج کیا جا رہا ہے کہ خواتین اور مرد فطری طور پر مختلف رجحانات رکھتے ہیں۔

‘‘ میڈیٹا اومنگ کے مطابق یہ معاشرتی رویے اور پابندیاں ہیں، جنہوں نے خواتین کی جنسی خواہشات کو دبا کر رکھا ہوا ہے۔

پورن فلمیں خواتین کے رویے تبدیل کر رہی ہیں؟

ماہر ارتقائی حیاتیات تھوماس یونکر کے خیالات اس سے مختلف ہیں۔ ان کے مطابق خواتین مردوں کی نسبت کم پورن فلمیں دیکھتی ہیں، اس کی وجہ معاشرتی نہیں بلکہ فطری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے جنسی رویوں میں حالیہ تبدیلی ایک چھوٹے درجے کی معاشرتی تبدیلی ہے۔ زیادہ تر خواتین کے فطری رویوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔

اگر جنسی لحاظ سے خواتین مکمل آزاد ہو گئی ہوتیں یا کوئی بڑی تبدیلی واقع ہو چکی ہوتی تو خواتین میں پورنوگرافی کے حوالے سے مردوں جیسے رویے ابھی تک پیدا ہو چکے ہوتے لیکن ایسا نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بس پورن فلموں کی مارکیٹ تبدیل ہو رہی ہے یا پورن فلموں کی مارکیٹ کو بڑھایا جا رہا ہے۔

فیمینسٹ پورن

تھوماس یونکر کے مطابق خواتین کی مارکیٹ پیدا کرنے کے لیے خصوصی طور پر خواتین کی ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے پورن فلمیں بنائی گئیں، ''میرے خیال سے فیمینسٹ پورن بنانے کی کوشش مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔

اُس طرح کی بڑی مارکیٹ وجود میں نہیں آ سکی، جیسی مردوں کی بنائی گئی۔‘‘

تاہم میڈیٹا اومنگ کا کہنا تھا کہ خواتین میں پورن دیکھنے کی عادت سے معاشرے میں تبدیلی ضرور آ سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ معاشرتی سطح پر پورن فلموں کو مزید قبولیت مل جائے گی۔

میڈیٹا اومنگ کے مطابق اب 'خواتین کی جنسی آزادی‘ اور 'پورن فار وویمن‘ کا نعرہ ضرور لگایا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک جنسی تصور ہے، جسے بس بیچا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق فیمینسٹ پورن صرف ایک دھوکا ہے اور اس کا خواتین سے خاص طور پر کوئی لینا دینا نہیں ہے، ''آخر میں آپ وہی دیکھتے ہیں، جو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔‘‘

مرد اور خواتین کی فطرت میں فرق

تھوماس یونکر کے مطابق خواتین اور مرد فطری لحاظ سے مختلف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خواتین مردوں کی نسبت کم پورن فلمیں دیکھتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مرد ظاہری شکل و صورت کو زیادہ پسند کرتے ہیں، جسمانی خدوخال، چہرہ اور صحت وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہیں۔ زیادہ تر مرد کسی بھی عورت کے انتخاب میں اس کی عمر، بچے پیدا کرنے کی صلاحیت یا ان چیزوں پر دھیان دیتے ہیں، جو ظاہری طور پر نظر آ رہی ہوتی ہیں۔

اس کے برعکس خواتین محسوسات اور باتوں سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ وہ اس ذمہ دار شخص کی تلاش میں ہوتی ہیں، جو ضرورت پڑنے پر ان کی مدد کر سکے، انہیں احساس تحفظ فراہم کر سکے۔

تھوماس یونک کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا، ''یہی وجہ ہے کہ مرد خواتین کی نسبت زیادہ پورن فلمیں دیکھتے ہیں۔ یہ ارادی نہیں فطری رجحان بھی ہے۔‘‘

تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ خواتین میں ماضی کی نسبت اس وقت مِرر نیوران زیادہ فعال کردار ادا کر رہے ہیں اور انہیں زیادہ فعال بنانے میں معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پورن انڈسٹری کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔

متعلقہ عنوان :