سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس،ہم آئین کے محافظ ہیں، چیف جسٹس

خفیہ ووٹنگ میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینا بے ایمانی ہو گی، عدالت عظمیٰ پارٹی ڈسپلن کی پابندی وزیراعظم اور بجٹ منظوری پر ہی ہے، جرمنی میں سیاسی جماعتیں طے کرتی ہیں کہ کون رکن اسمبلی بنے گا جسٹس عمر عطاء بندیال

بدھ 13 جنوری 2021 20:04

سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس،ہم آئین کے محافظ ہیں، چیف جسٹس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 جنوری2021ء) سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر عدالت نے ریمارکس دئیے ہیں کہ خفیہ ووٹنگ میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینا بے ایمانی ہو گی۔سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کی ۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ہم آئین کے محافظ ہیں۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیے کہ چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین، وزیراعظم اور وزرائے اعلی کے انتخابات الیکشن کمیشن اورالیکشن ایکٹ میں واضح نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب بھی الیکشن کمیشن نہیں کراتا اور اراکین سینٹ کا انتخاب الیکشن ایکٹ کے تحت ہوتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ منتخب نمائندہ عوام اور پارٹی سربراہ کو جوابدہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ رکن صوبائی اسمبلی کو خفیہ رائے شماری میں آزادانہ ووٹ کا حق دینا اہم سوال ہے، انتخابات میں لوگ امیدوار نہیں پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ خفیہ ووٹنگ میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینا بے ایمانی ہو گی۔جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پارٹی ڈسپلن کی پابندی وزیراعظم اور بجٹ منظوری پر ہی ہے، جرمنی میں سیاسی جماعتیں طے کرتی ہیں کہ کون رکن اسمبلی بنے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جرمنی والا طریقہ کار پاکستان میں مخصوص نشستوں پر ہوتا ہے، شہری جس کو چاہے ووٹ دے سکتا ہے لیکن ایم پی اے نہیں ایسا نہیں کر سکتا۔انہوں نے دلائل دیے کہ رکن صوبائی اسمبلی جس کو مرضی ووٹ دے تو پھر پارٹی کیسے چلے گی، پارٹی کا نمائندہ ڈسپلن کا بھی پابند ہوتا ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ اخلاقی بات کر رہے، عدالت میں معاملہ سیاسی ہے، اخلاقی اور سیاسی معاملے پرعدالت اپنی رائے کیوں دے اور حکومت عدالت سے کیوں رائے مانگ رہی ہے، پارلیمنٹ سے رجوع کرے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے پاس رائے لینے آئی ہے، عدالت میں سوال آرٹیکل 226 کے سینیٹ الیکشن پر اطلاق کا ہے اورعدالت جو بھی رائے دے گی اس پر فیصلہ پارلیمان نے کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندوں کی بات ہے، اس لیے عدالت کو معاملہ سیاسی لگ رہا ہے، ارکان کی نااہلی سے زیادہ سیاسی معاملہ نہیں ہوسکتا۔انہوںنے کہاکہ ریفرنس میں ایک سوال ہارس ٹریڈنگ، دوسرا انتخابات کی شفافیت کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 2006میں طے پانے والی میثاق جمہوریت میں اوپن بیلٹ کا وعدہ کیا گیا تھا، 2010میں اٹھارویں ترمیم آئی تو دونوں جماعتیں وہ وعدہ بھول گئیں لہذا عدالت آرٹیکل 226 کی تشریح کرے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 226 کے مطابق وزیراعظم اور وزیراعلی کے علاوہ تمام الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوں گے، کوئی رکن صوبائی اسمبلی پارٹی کے خلاف ووٹ دینا چاہتا ہے تو سامنے آ کردے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 53 اور 60 میں ذکر نہیں کہ انتخابات خفیہ ہوں گے یا اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں گے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آرٹیکل 226 کا اطلاق ہو تومخصوص نشستوں کے انتخابات ہو ہی نہیں سکتے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن قانون کے تحت ہوتے ہیں۔عدالت نے سماعت جمعرات کودن ایک بجے تک ملتوی کردی۔