جنسی خدمات خریدنے پر پابندی مؤثر؟ سیکس ورکرز کا جواب: ’نہیں

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 16 اپریل 2021 15:40

جنسی خدمات خریدنے پر پابندی مؤثر؟ سیکس ورکرز کا جواب: ’نہیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2021ء) جنسی خدمات: اس بارے میں یہ سوال کہ کیا کسی بھی ملک میں جسم فروش کو مجرم قرار دیا جانا چاہیے؟ معاشرے میں واضح تقسیم کا سبب بنتا ہے۔ فرانس میں بھی ایسا ہی ہوا۔ 2016ء میں قانون سازوں نے سیکس کی خریداری پر تو پابندی عائد کی مگر جسم فروشی کا کاروبار کرنے والوں پر نہیں۔ سیکس ورکز کی خدمات لینے کے دوران پہلی مرتبہ پکڑے جانے والے پر ایک ہزار پانچ سو سے لے ایک ہزار سات سو یورو تک کا جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور اگر کوئی دوبارہ یہ جرم کرتا ہوا پکڑا جائے تو اُس پر تین ہزار سات سو پچاس یورو تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

قانون سازوں کا ماننا تھا کہ سیکس ورکرز کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان اقدامات سے جسم فروشی اور انسانوں کی اسمگلنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

(جاری ہے)

اپنی بقا کے لیے جسم فروشی پر مجبور ہیں، ٹرانس جینڈرز

سیاسی عزم کا فقدان

اس بل کا مقصد جنسی کارکنوں کو خود مختار بنانا ہے لیکن اس صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ س کاروبار میں خریدار اور جسم فروش دونوں کو ایک نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔

ان کا کہنا ہے کہ اب اختیار یہ کاروبار کرنے والوں کو منتقل ہو گیا ہے جو اکثر خطرہ مول لے کر بھی اور نہایت کم پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس بارے میں گزشتہ برس دسمبر میں پیرس میں قائم سیاسی امور پر تحقیق والے ایک ادارے کے محققین نے 2020ء میں اس 'ایکٹ‘ کی ناکامی پر تحقیق کی اور اس کا جائزہ لیا۔ جنسی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والوں کے ایک گروپ کے مطابق فروری 2020ء تک چھ ماہ میں 10 سے زائد جسم فروشوں کا قتل ہوا۔

جرمنی:کاروبار دوبارہ شروع مگر قحبہ خانوں کے آداب بدل گئے

انسانی اسمگلنگ کا جسم فروشی سے تعلق

جسم فروشی کے خاتمے کے خواہاں بہت سے افراد کا یہ کہنا تھا کہ انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے جسم فروشی کی صنعت پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔لیکن بہت سے مطالعات اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں جیسے کے ' لا اسٹراڈا انٹرنیشنل‘نے اس موقف کو رد کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے کوئی مستند شواہد موجود نہیں ہیں جن سے یہ مفروضہ صحیح ثابت ہو سکے۔'لا اسٹراڈا انٹرنیشنل‘ کی کوورڈینیٹر سوزانے ہوف نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،'' جب مزدوروں کے استحصال، مثال کے طور پر گھریلو یا کھیتوں میں کام کرنے والوں کے استحصال کی، اس سے قطع نظر کے وہ قانونی یا غیر قانونی طور پر کام کرتے ہوں، بات ہوتی ہے تو ہر کوئی کہتا ہے کہ ان کے استحصال کو روکا جانا چاہیے، انہیں زیادہ حقوق ملنے چاہییں، وغیرہ وغیرہ لیکن جس لمحے جنسی کارکنوں کے بارے میں بات شروع کرو فوراً اسے ایک مختلف مسئلہ قرار دیا جانے لگتا ہے۔

‘‘

کورونا وائرس، بھارت میں سیکس ورکرز مالی مشکلات کا شکار

کون سا ماڈل زیادہ موثر؟

فرانس نے 2016ء میں جسم فروشی سے متعلق قوانین میں اصلاحات دراصل سویڈن سے متاثر ہو کر کی تھیں۔ سویڈن دراصل دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے 1999ء میں سیکس کی خریداری کو جرم قرار دیا تھا تاہم اس کی فروخت کو نہیں۔

آئر لینڈ کے چند سیکس ورکرز نے 2017ء کا 'نورڈک‘ ماڈل اپنایا۔

اس قانون کے اثرات کے بارے میں آزاد ذرائع سے کی جانے والی تحقیقات بہت محدود ہیں۔ سویڈش حکومت نے اپنی پالیسی پر 2010ء میں نظر ثانی کی، جس سے پتا چلا کہ سویڈن میں 'اسٹریٹ پروسٹیٹیوشن‘ میں نصف کی کمی واقع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا براہ راست تعلق اس امر سے ہو سکتا ہے کہ سیکس کی فروخت کو جرم قرار دے دیا گیا۔ جبکہ سیکس ورکرز کا کہنا ہے کہ ان کی خدمات اب گھروں میں منتقل ہو گئی ہیں جہاں انہیں خفیہ انداز، غیر محفوظ اور غیر یقینی صورتحال میں کام کرنا پڑتا ہے۔

مرد جسم فروشوں کے حقوق کا بھی تحفظ کیا جائے، ایمسٹرڈم میں مہم

انسانی حقوق کی خلاف ورزی

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2016ء میں جنسی کاروبار سے متعلق ایک پالیسی جاری کی جس میں اعلان کیا گیا،''جنسی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان قوانین کو منسوخ کرنا ضروری ہے، جو جنسی خدمات کی فروخت کو جرم قرار دیتے ہیں۔مزید یہ کہ جنسی کام کے لیے جگہ کرائے پر لینے کی بھی ممانعت ہونی چاہیے۔

‘‘

فرانس کی اعلی ترین آئینی عدالت نے سن 2019 میں پیسوں کے بدلے جنسی خدمات کے حصول کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن اس معاملے کا فیصلہ یورپی کورٹ آف ہیومن رائٹس کی جانب سے کیا جاسکتا ہے، جو فی الحال اس کیس کا جائزہ لے رہی ہے۔

اشٹیفنی بُرنے/ ک م/ ع ا