پاکستان سے آکسیجن درآمد کرنے کی تجویز مسترد، مودی پر امن پسندوں کی تنقید

DW ڈی ڈبلیو منگل 11 مئی 2021 20:00

پاکستان سے آکسیجن درآمد کرنے کی تجویز مسترد، مودی پر امن پسندوں کی ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 مئی 2021ء) مشرقی پنجاب کے وزیر اعلی امارندر سنگھ کی طرف سے بھارتی سرکار سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ اسے پاکستان سے آکسیجن درآمد کی اجازت دی جائے کیونکہ مشرقی پنجاب سمیت ملک کے کئی حصوں میں آکسیجن کی شدید کمی ہے۔ لیکن بھارتی سرکار نے اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ اس بات کے انکشاف پر پاکستان اور بھارت کی سول سوسائٹی چراغ پا ہے۔

دونوں ممالک میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد اس حکومتی فیصلے کی پرزور مذمت کر رہے ہیں۔ کچھ کے خیال میں یہ فیصلہ سیاسی ہے، جب کہ کچھ اسے بد گمانی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور کچھ کے خیال میں یہ فیصلہ مودی کی ضد اور ہٹ دھرمی کا عکاس سے۔

آکسیجن درآمد کی اجازت دو

مشرقی پنجاب کے دارالحکومت چندی گڑھ سے تعلق رکھنے والے معروف دانشور، صحافی اور تجزیہ کار چنچل منوہر سنگھ کا کہنا ہے کہ دکھ کی اس گھڑی اور بحران کی اس کیفیت میں بھارتی حکومت کو اپنی جھوٹی شان و شوکت کے پردے کے پیچھے نہیں چھپنا چاہیے اور اپنی ضد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان سے آکسیجن درآمد کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''پنجاب کو اس وقت نوے میٹرک ٹن آکسیجن کی ضرورت ہے جو جھاڑکھنڈ سے لائی جارہی ہے۔ اس میں 40 سے 48 گھنٹے لگ جاتے ہیں جبکہ یہی آکسیجن پاکستان کے پنجاب سے بہت کم وقت میں لائی جا سکتی، جس سے نا صرف مشرقی پنجاب کو فائدہ ہو سکتا ہے بلکہ نئی دہلی اور دوسری ریاستوں کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے، جہاں بحران بہت گھمبیر ہے۔

ہزاروں کی تعداد میں لوگ پریشان حال ہیں اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ آٹھ مئی کو ایک اجلاس میں پنجاب سے اراکین پارلیمنٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب امارندرسنگھ سے اپیل کی ہے کہ وہ وزیر اعظم مودی سے ایک بار پھر بات کرکے ان کو آکسیجن کی درآمد پر قائل کریں۔

چنچل منوہر سنگھ کے بقول بھارت پہلے ہی سنگاپور سے آکسیجن درآمد کر رہا ہے،''وزیراعلی مشرقی پنجاب کا کہنا ہے کہ سلنڈر کو جہازوں کے ذریعے اٹھایا جاتا ہے، انہیں بھرا جاتا ہے اور پھر انہیں سڑکوں کے ذریعے واپس پنجاب لایا جاتا ہے جس سے بہت سارا وقت ضائع ہوتا ہے۔

میرے خیال میں مودی سرکار کو فوری طور پر پاکستان سے رابطہ کرنا چاہیے اور انسانی بنیادوں پر وہاں سے آکسیجن درآمد کرنی چاہیے۔‘‘

سیاسی فیصلہ

کراچی سے تعلق رکھنے والے پاک انڈیا پیپلز فورم فار پیس ایند ڈیموکریسی کے رہنما راحت سعید کا کہنا ہے کہ مودی کو اس بات کی بالکل فکر نہیں کہ ہندوستان میں کتنے لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''مودی اپنے لیے ایک نیا محل تعمیر کرنے میں مصروف ہیں اور انہیں اس بات کی فکر نہیں کہ کتنے لوگوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں لیکن بھارت سرکار کے اس فیصلے کا سیاسی پہلو بھی ہے۔ بی جے پی نہیں چاہتی کہ مشرقی پنجاب اور پاکستانی پنجاب میں قربت بڑھے یا مشرقی پنجاب کی پاکستان سے قربت بڑھے کیونکہ ماضی میں پاکستانی حکمراں خالصتان کی تحریک کی حمایت کرتے رہے ہیں اور ہمارے حکمراں ببانگ دہل یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ خالصتان کی حمایت کرتے ہیں تو اس وجہ سے میرے خیال میں یہ فیصلہ خالصتاً سیاسی ہے۔

‘‘

بدگمانی کا نتیجہ

راحت سعید کا مزید کہنا تھا کہ اس بدگمانی کی ذمہ دار صرف بھارتی سرکار نہیں ہے بلکہ ماضی میں پاکستان کی طرف سے بھی کئی ایسے اقدامات کیے گئے، جن کی وجہ سے دونوں ملکوں میں بدگمانی پیدا ہوئی، جو اب بھی برقرار ہے۔

غیر عقلی اور غیر منطقی فیصلہ

تھرپارکر سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن رادھا بھیل کا کہنا ہے کہ مودی کا یہ فیصلہ غیر عقلی اور غیر منطقی ہے۔

انہوں نے اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت میں لوگ تڑپ تڑپ کے مر رہے ہیں اور ہلاکتوں کی ایک بڑی وجہ آکسیجن کی عدم دستیابی ہے اگر پاکستان کی حکومت آکسیجن کی فراہمی پر راضی ہے تو مودی کو انکار بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ بھارتی پنجاب سمیت مختلف صوبوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور مزید لوگ مر رہے ہیں ایسی صورت میں آکسیجن فوری طور پر پاکستان سے منگوانی چاہیے۔

‘‘

ان کا مذید کہنا تھا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں مودی سرکار کو سیاست نہیں کرنا چاہیے، ''انسانی جانوں سے زیادہ اہم دنیا میں کوئی چیز نہیں ہے۔ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہیں۔ ماضی میں بھی بحران کی شکل میں بھارت سرکار نے پاکستان سے چیزوں کی درآمد کی اجازت دی تھی تو اب کیا حرج ہے۔ مودی کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انسانوں کی جان بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔

‘‘

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد کے رہنما سجاد مہدی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان یہاں سے آکسیجن بھیجتا ہے تو یہ سکیورٹی کا معاملہ نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''اس مسئلہ کو سکیورٹی کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ خالصتاً انسانی معاملہ ہے۔"

واضح رہے کہ پاکستان سے آکسیجن درآمد کرنے کی تجویز کے بارے میں انکشاف مشرقی پنجاب کی حکومت کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک پریس ریلیز میں گزشتہ منگل کو کیا گیا، جسے کل اور آج پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے نمایاں کوریج دی جب کہ سوشل میڈیا پر بھی اس انکشاف کا بہت چرچا رہا۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت نے مقامی صنعت کو بھی کمرشل امپورٹ کی اجازت نہیں دی۔