وزیر خزانہ کی جانب سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کے عزم کی بھرپور تائیدکرتے ہیں :میاں زاہد حسین

آئی ایم ایف سے قرضہ لینے والے عوام کا مفاد قربان کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، عوام پر ٹیکس بوجھ میں مزید اضافہ ممکن نہیں، سخت فیصلے کرنا ہونگے

جمعہ 25 جون 2021 17:44

وزیر خزانہ کی جانب سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کے عزم کی بھرپور تائیدکرتے ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 جون2021ء) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کے عزم کی بھرپور تائید ہو حمایت کرتے ہیں۔ٹیکس آمدنی میں اضافہ کے بغیر ملک ہمیشہ قرضوں کا محتاج رہے گا اور ہر حکومت کو عوام کے بجائے غیر ملکی اداروں کے مفادات کے مطابق پالیسیاں بناناپڑتی ہیں جس کی گنجائش اب کم ہوتی جا رہی ہے۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ستر سال میں ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کو سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے جسکے نتیجے میں بار بار آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے قرضے لینا پڑتے ہیں اور نگرانی کے غیر موثر نظام کی وجہ سے زیادہ تر قرضے ضائع ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

آئی ایم ایف کی جانب سے ہر معاہدے میں حکومت کو اپنی آمدنی بڑھانے کا کہا جاتا ہے جس پر ارباب اختیار شارٹ کٹ اختیار کرتے ہوئے امراء پر ٹیکس عائد کرنے یا دستاویزی معیشت کو فروغ دینے کے بجائے غریبوں پر ٹیکس بڑھا دیتے ہیں جس سے غربت اور بے چینی بڑھتی ہے مگر اب ایسا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اس لئے ملک کو بچانے کے لئے سخت فیصلے کرنا ہونگے۔

آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنے کے لئے ہمیشہ سے پٹرولیم لیوی، بجلی اور گیس کے نرخ سیلز ٹیکس اور مختلف اشیاء پر درامدی ڈیوٹی وغیرہ بڑھا دی جاتی ہے جس سے عوام متاثر ہوتے ہیں مگر اب یہ فارمولا نہیں چل سکتا اس لئے اشیائے خورو و نوش پر ٹیکس بڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جو پریشان کن ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا ٹیکس نظام تصادات سے بھرپور ہے ۔

پراپرٹی کرائے پر دینے والوں سے تو ٹیکس لیا جاتا ہے مگر زرعی زمین کرائے پر دینے والوں کو ٹیکس معاف ہے جبکہ دونوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے پاور سیکٹر میں اصلاحات اور نقصان میں چلنے والے اداروں کی فروخت کا معاہدہ کیا گیا ہے جسے مسلسل نظر انداز کیا گیا تاہم اب ارباب اختیار کے لئے کرونا وائرس کے پیچھے چھپنا مشکل ہو گیا ہے۔ اب انھیں عملی اقدامات کرنا ہی ہونگے کیونکہ یہ واحد آپشن ہے۔میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ جس ملک میں ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہوں اور کارپوریٹ سیکٹر کے بعد سب سے زیادہ ٹیکس تنخواہ دار ادا کرتے ہوں، زرعی شعبہ ٹرانسپورٹ اور ریٹیل سیکٹرسے ٹیکس کے نام پر مزاق کیا جا رہا ہواسکا کیا مستقبل ہو گا۔