الزامات کی بارش: اسلام آباد کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش

DW ڈی ڈبلیو منگل 10 اگست 2021 19:40

الزامات کی بارش: اسلام آباد کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اگست 2021ء) کینیڈا کے ایک سابق سفیر برائے افغانستان اور دوسرے کئی حلقے بھی پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں اور اسلام آباد پر پابندیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ کل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس طرح کے جذبات کا اظہار کیا اورخبردار کیا کہ اسلام آباد کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے۔

پاکستان میں کئی حلقے وزیر خارجہ کے اس بیان سے متفق نظر آتے ہیں۔

دس برس سے پاکستان کی دوغلی پالیسی پر تنقید کر رہا ہوں، کینیڈین سفارتکار

امریکی ناکامی اور پاکستان

دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شیعب کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنی ناکامی چھپانے کے لئے پاکستان کوبدنام کر رہا ہے اور اسلام آباد کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "امریکہ میں یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ دو ٹریلین ڈالرزخرچ کر کے امریکہ کو کیا فائدہ ہوا اور واشنگٹن وہاں سے جلد بازی میں کسی سیاسی تصفیے کے بغیر کیوں نکلا، جس کی وجہ سے حالات خراب ہوئے۔ ان خراب حالات کی ذمہ داری امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان پر ڈال رہے ہیں۔‘‘

جنرل امجد کے بقول افغان صدر اشرف غنی نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے امن مذاکرات کو کامیاب نہیں ہونے دیا اور ایک غیر جانب دار حکومت نہیں بننے دی اور اب کابل اور واشنگٹن یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں اس لیے ناکام ہوئے کیونکہ پاکستان میں طالبان کی خفیہ پناہ گاہیں ہیں۔

لاکھوں افغان مہاجرین

جنرل ریٹائرڈ امجد شیعب کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے متعدد مرتبہ امریکہ کو کہا کہ یہ تین ملین سے زیادہ جو افغان مہاجرین ہیں ان کو واپس بلایا جائے، '' کیونکہ ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم نے طالبان کو خفیہ پناہ گاہیں فراہم کی ہیں۔ لیکن 30 لاکھ مہاجرین میں سے اگر کوئی وہاں جاتا ہے اور وہاں جاکے لڑائی میں حصہ لیتا ہے تو ہم اسے کیسے پکڑ سکتے ہیں۔

ہم کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان میں سے کون مہاجر ہے اور کون جنگجو ہے۔ اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ ایسی کوئی خفیہ پناہ گاہیں تو امریکہ نے بیس سال میں ان کو ختم کیوں نہیں کیا۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان پر پابندی لگائی گئی تو پاکستان مکمل طور پر چینی کیمپ میں ہوگا۔

افغان طالبان کی حمایت کا تاثر غلط

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر حسین شہید سہروردی کا کہنا ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے اور وہ یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ طالبان بزور طاقت کابل پر قبضہ کر لیں کیونکہ اس سے مہاجرین کا بہت بڑا بہاؤ پاکستان کی طرف ہوگا اور افغان طالبان کی کامیابی کے نتیجے میں پاکستان میں مذہبی جماعتیں مزید انتہا پسندی کی طرف جائیں گے۔‘‘

کیا پاک امریکا تعلقات میں رومانس ختم ہونے جا رہا ہے؟

ڈاکٹر سہروردی کے مطابق طالبان کی 60 فیصد قیادت دوحہ میں بیٹھی ہوئی ہے، جو خود امریکہ نے وہاں بٹھائی ہے۔

" بقیہ طالبان رہنماؤں کی موجودگی ایران اور دوسرے ممالک میں بھی ہے جبکہ پاکستان میں بمشکل دس فیصد قیادت ہے اور وہ بھی غیر فعال ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستان میں خفیہ پناہ گاہیں ہیں۔‘‘

انہوں نے سوال کیا کہ افغان فوجی بڑی تعداد میں ہتھیار ڈال رہے ہیں، ''جو افغان پشتون سپاہی کسی غیر پشتون افغان آفیسر کو سلوٹ نہیں مار رہا کیا یہ بھی پاکستان کی سازش ہے۔

‘‘

ڈاکٹر سہروردی کا کہنا تھا کہ اس طرح کے الزامات سے پاکستان اور مغرب کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہونگے۔

فوری جنگ بندی میں پاکستانی کردار

نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر جنگ بندی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "معید یوسف صاحب نے یہ کہا ہے کہ پاکستان کابل پہ طالبان کے قبضے کو برداشت نہیں کرے گا لیکن طالبان تو مسلسل مختلف صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے جنگ میں شدت آ رہی ہے اور اس کا پاکستان کو بہت بھاری نقصان ہو گیا۔

لہذا پاکستان کو فوری طور پر جنگ بندی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو بین الاقوامی طور پر پابندیاں لگ سکتی ہیں جس سے معیشت کا جنازہ نکل جائے گا۔‘‘

پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا نوے فیصد کام مکمل

ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا یہ نہیں مانے گی کہ پاکستان کا طالبان پر کوئی اثر رسوخ نہیں ہے یا اسلام آباد کے طالبان رہنماؤں سے تعلقات نہیں ہے۔ "پاکستان اور افغان طالبان کے تاریخی تعلقات ہیں اور خود انہوں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے طالبان کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ مذاکرات میں شرکت کریں تو آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان سے تعلقات نہیں ہے۔ آنے والے ہفتوں میں پاکستان پر مزید دباؤ بڑھے گا۔‘‘